ہو وہ فعل عبث اور مخالف سنت ہے اور مخالفت سنت سید الانام حرام ہے۔ پس ہرگز جائز نہ ہو گا۔ ہاں اگر اس کا دل چاہے تو جس دن ہو سکے خفیہ خیرات کر دے مگر دن مقرر نہ کرے تاکہ ریاکاری سے محفوظ رہے۔‘‘
اہل میت کا پھوڑ اور بھورا بچھانا:
تعزیت سنت ہے مگر پھوڑ چٹائیاں اور بھورے بچھا کر بیٹھنا شرع شریف کے خلاف اور بے اصل ہے۔ حدیث میں ہے:
((عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ الْبَجَلِیِّ رضی اللّٰه عنہ قَالَ کُنَّا نَرَی الْاِجْتِمَاعَ اِلٰی اَہْلِ الْمَیِّتِ وَ صَنْعَۃِ الطَّعَامِ مِنَ النِّیَاحَۃِ))[1]
اور مسند احمد بن حنبل میں یہ الفاظ ہیں :
((عَنْ جَرِیْرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ الْبَجَلِیِّ رضی اللّٰه عنہ قَالَ کُنَّا نَرَی الْاِجْتِمَاعَ اِلٰی اَہْلِ الْمَیِّتِ وَ صَنْعَۃِ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِہٖ مِنَ النِّیَاحَۃِ))[2]
’’سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ صحابی فرماتے ہیں کہ اہل میت کے ہاں جمع ہونا اور لوگوں کے لیے کھانے کا اہتمام کرنا ہم لوگ (صحابہ رضی اللہ عنہم ) نوحہ سمجھتے تھے۔‘‘
بہت سے فقہائے احناف کا فتویٰ:
((وَ فِی الْاِمْدَادِ قَالَ کَثِیْرٌ مِّنْ مُتَأَخِّرِیْ اَئِمَّتِنَا یَکْرَہُ الْاِجْتِمَاعَ عِنْدَ صَاحِبِ الْبَیْتِ وَ یَکْرَہُ لَہُ الْجُلُوْسَ فِیْ بَیْتِہٖ حَتّٰی یَأْتِیَ مَنْ یُعَزّٰی بَلْ اِذَا فَرَغَ وَ رَجَعَ النَّاسُ فَلْیَتَفَرَّقُوْا وَ یَشْتَغِلُ النَّاسُ بِاُمُوْرِہِمْ وَ صَاحِبُ الْبَیْتِ بِاَمْرِہٖ))[3]
’’ہمارے بہت سے متاخرین حنفیہ نے کہا ہے کہ اہل میت کے ہاں تعزیت کے
|