Maktaba Wahhabi

186 - 242
تیسرے روز مردوں کو پھول تقسیم کرنے کی کیا دلیل ہے؟ جواب:..... اللہ تعالیٰ کے نام پر بے رسم و ریاء کھانا تقسیم کرنا اور میت کو ثواب پہنچانا بہت بڑا ثواب ہے اور از خود دن مقرر کرنا محض بے اصل ہے اور تیسرے دن پھول تقسیم کرنا بھی شریعت میں نیا کام ہے۔‘‘ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا ارشاد: ’’دیگر از عادات شنیعہ ما مردم اسراف است در ماتم ہا دسیم و چہلم و ششماہی و فاتحہ سالینہ ایں ہمہ را در عرب اول وجود نہ بود، مصلحت آں است کہ غیر تعزیت وارثاں میت تاسہ روز و اطعام ایشاں یک شبانروز رسمے نباشد۔‘‘[1] ’’ہمارے ہاں بری رسموں میں سے ایک یہ ہے کہ ماتم سوم، چہلم، ششماہی اور برسی کی فاتحہ پر ہم بہت کچھ اسراف کرتے ہیں ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین کے زمانہ میں ان کا ہرگز وجود نہ تھا۔ فلاح اس میں ہے کہ تین دن تک غیر وارث اہل میت سے تعزیت کریں اور ایک دن رات کے کھانے کو رسم نہ بنائیں ۔‘‘ مولانا احمد رضا خاں کا فتویٰ: سوال:..... میت کی وفات کے بعد تعزیت کرنے والے اہل میت کے گھر جمع ہوتے ہیں اور عورتیں دوسرے دن یا تیسرے دن واپس جاتی ہیں اور کچھ چالیس روز بیٹھی رہتی ہیں اس مدت اقامت میں عورت کے کھانے پینے، پان چھالیہ کا اہتمام اہل میت کرتے ہیں ۔ اگر نقدی موجود نہ ہو تو قرض لیتے ہیں ۔ شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:..... سبحان اللہ! مسلمان یہ پوچھتا ہے، یا کیا یوں پوچھ کہ یہ ناپاک رسم کتنے قبیح اور شدید گناہوں ، سخت و شنیع خرابیوں پر مشتمل ہے۔ اولاً یہ دعوت خود ناجائز و بدعت شنیعہ و قبیحہ ہے۔ امام احمد اپنی مسند اور ابن ماجہ سنن میں بسند صحیح سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے
Flag Counter