Maktaba Wahhabi

196 - 242
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو میلہ کی جگہ بنانے سے منع فرمایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو منع کر دیا ہے کہ میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنائیں ۔‘‘ شیخ علی محفوظ مصری رحمہ اللہ : ((وَ اِذَا ثَبَتَ ہٰذَا بِالنِّسْبَۃِ اِلٰی قَبْرِ النَّبِیِّ وَ ہُوَ سَیِّدُ الْقُبُوْرِ وَ اَفْضَلُہَا فَقَبْرُ غَیْرِہٖ اَوْلٰی بِالنَّہْیِ کَائِنًا مَنْ کَانَ))[1] ’’جب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر میلہ، عرس وغیرہ منع اور حرام ہے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف دنیا بھر کی تمام قبروں کی سردار اور ان تمام سے افضل ہے تو پھر دوسرے کسی بزرگ کی قبر پر میلے اور عرس کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔‘‘ فقہاء احناف کے فتاویٰ شیخ علی متقی حنفی رحمہ اللہ کا فتویٰ: شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد شیخ علی متقی مکی سے عرس کے متعلق دریافت کیا تو آپ کچھ دیر کے لیے متامل ہوئے، ’’پس سر مبارک زمانے فرو افگند و بر آور وند و فرمودند اینہاں درمیان سلف نہ بود، مَا ثَبَتَ بِالسُّنَۃِ۔[2] ’’شیخ علی متقی نے کچھ دیر کے لیے سر جھکایا اور پھر سر اوپر اٹھا کر فرمانے لگے کہ یہ تمام رسمیں سلف صالحین میں مروج نہ تھیں ۔‘‘ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا فتویٰ: ((وَ مِنْ اَعْظَمِ الْبِدْعِ مَا اخْتَرَعُوْا فِیْ اَمْرِ الْقُبُوْرِ وَ اتَّخَذُوْہَا عِیْدًا))[3]
Flag Counter