Maktaba Wahhabi

197 - 242
’’بزرگان دین کی قبروں کو میلہ گاہ بنا لینا اور ان کے متعلق اختراعی باتیں سراسر خلاف سنت اور ناجائز باتیں ہیں ۔‘‘ شاہ محمد اسحاق کا فتوی: ’’مقرر ساختن روز عرس جائز نیست۔‘‘[1] ’’عرس کا دن مقرر کرنا شریعت میں جائز نہیں ہے۔ دوسرا فتوٰی:..... ’’مقرر کردن یوم عرس ثبوت آں از حضرت صلی اللہ علیہ وسلم و خلفاء راشدین و ائمہ اربعہ نرسیدہ پس امرے کہ ثبوت آں از شارع و مجتہدین متحقق نباشد آں امر را بر اصل خود بایدا داشت۔‘‘[2] ’’یعنی عرس کا دن مقرر کرنے کا ثبوت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور ائمہ اربعہ سے ثابت نہیں ہے پس ہر وہ کام کہ جس کا ثبوت جناب شارع علیہ السلام اور مجتہدین سے ثابت نہ ہو اس کو جوں کا توں رہنے دیا جائے۔‘‘ عرس اور بزرگان دین حضرت مرزا مظہر جان جاناں کی وصیت: ’’برسمیات عرفے از عرس وغیرہ مقید نباید شد کہ در ارتکاب آں شناعت بسیار است یکے التزام خلاف حضرات ایں طریقہ کہ از قید رسمیات خارج است الخ۔‘‘[3] ’’عرس کی مروجہ رسموں کی پابندی ہرگز نہ کی جائے کیونکہ ان میں بہت سی شرعی قباحتیں پائی جاتی ہیں : (۱) رسم عرس بزرگان دین کے طریقے کے خلاف ہے۔ (۲) التزام ما لم یلزم ہے۔ (۳) اسراف وغیرہ۔
Flag Counter