Maktaba Wahhabi

200 - 242
’’بعض ضعیف روایات میں ہے کہ جمعرات، شب براء ت اور عرافہ وغیرہ کی رات کو اپنے اپنے گھروں میں روحیں واپس آتی ہیں ۔ مگر یہ روایات صحاح ستہ میں موجود نہیں اور نہ صحیح مرفوع اور متصل الاسناد ہیں اور جب تک کوئی روایت صحیح مرفوع اور متصل الاسناد نہ ہو درجہ اعتبار سے ساقط ہوتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ملا علی قاری اور شیخ الاسلام اور دوسرے محدثین نے ان روایات کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے اور خود شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اس کو غریب (ضعیف) لکھا ہے۔‘‘ شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی تحقیق: شاہ اسحاق کے جانشین سید نذیر حسین رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں : ’’مرنے کے بعد انسان کی روح کا آنا یا نابالغ روح کا بڑھنا، ان باتوں کا شریعت میں کچھ ثبوت نہیں ۔‘‘[1] میں کہتا ہوں کہ یہ روایات ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ نصوص قطعیہ اور احادیث صحیحہ کے بھی خلاف ہیں ۔ کیونکہ میت کی روح یا تو نیک اور سعید ہو گی یا پھر بد اور شقی۔ اگر وہ نیک ہے تو واپس آنا تو کجا وہ واپس آنے کی آرزو بھی نہیں کرے گی۔ جیسے کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ اَحَدٍ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یُحِبُّ اَنْ یَرْجِعَ اِلَی الدُّنْیَا وَ لَہٗ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَیْئٍ اِلَّا الشَّہِیْدُ یَتَمَنّٰی اَنْ یَرْجِعَ اِلَی الدُّنْیَا فَیُقْتَلُ لِمَا یَرٰی مِنَ الْکَرَامَۃِ))[2] ’’جنتیوں میں سے کوئی بھی واپس آنے کو تیار نہ ہو گا خواہ اس کو ساری دنیا ملنے کا یقین ہو ہاں شہید دوبارہ شہادت کا درجہ حاصل کرنے کے لیے واپس آنا چاہیے گا (مگر اسے بھی اجازت نہ ہو گی)۔‘‘
Flag Counter