Maktaba Wahhabi

205 - 242
ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ کا فتویٰ: ((وَ الْمُوْصِلُ لِلثَّوَابِ اِلَی الْمَیِّتِ ہُوَ اللّٰہُ تَعَالٰی سُبْحَانَہٗ لِاَنَّ الْمَیِّتَ لَا یَسْمَعُ بِنَفْسِہٖ))[1] ’’پسماندگان کے صدقہ خیرات کا ثواب براہ راست میت کو نہیں پہنچتا بلکہ اللہ میت تک ثواب پہنچا دیتا ہے کیونکہ میت بذات خود قوت سماع سے قطعی محروم ہے۔‘‘ فائدہ: علامہ سید السند میر شریف جرجانی اور علامہ سید محمود آلوسی نے لکھا ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے علی الرغم معتزلہ، صالحیہ، بزیغیہ اور ملحد ابن راوندی جیسے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مردوں میں قوت سماع اور قوت ارادہ موجود رہتی ہے۔[2] شبہ1:..... صحیح بخاری میں ہے کہ فتح بدر کے بعد کنویں میں پڑی ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کی نعشوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا تھا۔ جس سے معلوم ہوا کہ مردوں میں قوت سماع ہوتی ہے ورنہ خطاب کا کیا مطلب تھا؟ جواب:..... علامہ شامی حنفی رد المختار میں لکھتے ہیں : ((اِنَّ عَائِشَۃَ رَدَّتْہُ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی: ﴿وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ،﴾ وَ ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ وَ اِنَّہٗ اِنَّمَا قَالَ عَلٰی وَجْہِ الْمَوْعِظَۃِ لِلْأَحْیَائِ وَ بِاَنَّہٗ مَخْصُوْصٌ بِأُولٰئِکَ تَضْعِیْفًا لِلْحَسْرَۃِ عَلَیْہِمْ وَ بِاَنَّہٗ خُصُوْصِیَّۃً لَہٗ علیہ السلام))[3] ’’سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے آیت ﴿وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ،﴾ اور ﴿اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی﴾ کے تحت اس خطاب کو مسترد کر دیا تھا نیز یہ مردوں کو خطاب نہ تھا بلکہ یہ زندوں کے لیے وعظ تھی، پھر یہ صرف قلیب بدر والوں کے لیے خاص تھا تاکہ ان کی حسرت میں مزید اضافہ ہو جائے اور یہ محض
Flag Counter