Maktaba Wahhabi

242 - 242
ہے لہٰذا مخلوق کی نذر بھی شرک ہے۔ دوم اس لیے کہ نذر میں تملیک (مالک بنانا) شرط ہے اور مردہ مالک نہیں ہوتا لہٰذا یہ نذر باطل ہے۔ سوم اس لیے کہ نذر ماننے والا گویا یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرح فوت شدہ بزرگ بھی انسانوں کے معاملات میں تصرف کرتے ہیں اور یہ عقیدہ کفر ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اولیاء کرام کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ان کی قبروں پر نقدی اور تیل بتی وغیرہ کی جو نذریں چڑھائی جاتی ہیں سب حرام ہیں اور ان کی حرمت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔‘‘ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کا فتویٰ سوال:..... در مقدمہ شیرینی قبور و شیرینی حلوائی تعزیہ ہائے کہ مردم او برائے آنہا بطریق پیشکش می نہند قول صحیح و مرجح نزد آنجناب چیست کہ قبروں اور تعزیوں پر شیرینی چڑھانا کیسا ہے؟ آپ اپنا صحیح اور راجح فتویٰ تحریر فرمائیں ۔ جواب از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ :..... مکروہ است۔[1] ’’قبروں پر شیرینی وغیرہ تقسیم کرنا مکروہ ہے۔‘‘ شاہ اسحاق رحمہ اللہ کا فتویٰ: ’’نذر کردن برائے غیر خدا شیرینی و طعام آوردن نزد قبر بطریق نذر یا بطریق تقرب جائز نیست بلکہ بدعت است و مکروہ تحریمی و عادت کفار است بنسبت بتاں ۔‘‘[2] ’’غیر اللہ کی نذر ماننا اور بطورِ نذر تقرب کسی قبر پر شیرینی اور طعام تقسیم کرنا نہ صرف جائز نہیں بلکہ بدعت مکروہ تحریمی اور کفار کی عادت ہے یعنی وہ اپنے بتوں پر اس طرح نذریں چڑھایا کرتے تھے۔‘‘
Flag Counter