Maktaba Wahhabi

25 - 242
ملحدین کا نظریہ حیات و ممات: مگر واقعہ یہ ہے کہ ایسے تمام تصورات سراسر پوچ، غلط محض اور غیر اسلامی ہیں ، جو صرف اس ذہن میں انگڑائی لیتے ہیں جو وجودباری تعالیٰ اور بعث بعد الموت کا منکر اور عام زبان میں دھریہ کہلاتاہے اور اس کی کج فکری اور عقل نارسا کے مطابق انسان بخت و اتفاق کا کرشمہ ہے یعنی حضرت انسان عناصر اربعہ سے مرکب اور مرتب ہے جو آگ، پانی، مٹی اور ہوا کی باہمی ترکیب و ترتیب سے معرض وجود میں آتا ہے اور ان چار عناصر میں جب تک کشش باہمی اور ترکیب و ترتیب قائم رہتی ہے انسان زندہ رہتا ہے اور جب اس باہمی ترکیب و ترتیب میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تووہ ہمیشہ کے لیے برباد ہو جاتا ہے۔ ایک ملحد شاعر یوں ہرزہ سرائی کرتا ہے: زندگی کی کیا ہے عناصر اربعہ میں ظہور ترتیب موت کیا ہے؟ ان اجزا کا پریشان ہونا اس لیے وہ اس فانی دنیا ہی کو اپنا حقیقی جہان اور اصلی گھر تصورکرتا ہے اوروہ بزعم خویش اس فانی دنیا میں اپنی اصلی زندگی گزار رہا ہوتا ہے لہٰذا وہ عیش و عشرت کا سامان، خوبصورت نقش و نگار والی عمارتیں ، مرصع فرنیچر، سونے چاندی کے برتن فاخرہ لباس، دھن دولت کی کثرت، سیم و زر، بینک بیلنس، پجارو کار، بڑے پیمانے کی تجارت اور شان و شوکت کا دوسرا سامان اکٹھا کر لینے کو اپنی زندگی کا واحد مقصد قرار دیتا ہے اورموت چونکہ اس کو ان تمام چیزوں سے محروم کر دیتی ہے چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے نزدیک موت ایک ایسا خون خوار درندہ اور ہلاکت آفرین عفریت ہے جو نہ صرف اس سے اس کا اصلی جہان چھین لے گا۔ بلکہ اس کے جسمانی انجر پنجر کو بھی ہمیشہ کے لیے تہس نہس کیے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ اس لیے ملحد اور دہریہ انسان موت کو اپنے لیے ناقابل برداشت گالی سمجھتا ہے اور اس کے تصور سے لرزاں اور ترساں رہتا ہے جیسا کہ اس کے اس برخود غلط نظریے اور مفروضے کو قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے:
Flag Counter