Maktaba Wahhabi

54 - 242
﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک: ۲) ’’اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے کہ جس نے موت اور حیات کو پیدا فرمایا تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں سے کون اچھا ہے عمل میں ۔‘‘ یعنی موت اور زندگی اسی دارِ ابتلاء کی منازل ہیں جن سے انبیاء و رسل علیہم السلام صحابہ رضی اللہ عنہم ، صلحاء اولیاء اور دوسرے انسانوں کو گزرنا پڑا ہے۔ چراغ چشت ص: ۲۱ مؤلفہ حسین فریدی کی یہ عبارت ’’اَلَا اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا یَمُوْتُوْنَ وَیُنْقَلُوْنَ مِنْ دَارٍ اِلٰی دارٍ‘‘ ایک مہمل قول ہے۔ کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نص جلی ہے۔ ﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ،﴾ (الزمر: ۳۰) ’’ہر چند آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی موت آنے والی ہے۔‘‘ پھر کوئی ولی موت سے کیسے بچ سکتا ہے۔ معلوم ہوا لفظ موت سے گھبرانا نہ صرف قرآن مجید کی نص جلی کا انکار ہے بلکہ یہودیانہ اورمشرکانہ ذہنیت بھی ہے جیسے کہ ﴿وَ لَتَجِدَنَّہُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا﴾ (البقرۃ: ۹۶)’’اور بلاشبہ یقینا تو انھیں سب لوگوں سے زیادہ زندہ رہنے پر حریص پائے گا اور ان سے بھی جنھوں نے شرک کیا۔‘‘ میں اسی ذہنیت سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ موت کی تعریف: (۱)..... علماء کے ہاں موت کی تعریف، موت کا معنیٰ ہے انقطاع، جدائی، حائل ہو جانا حالت کا تبدیل ہو جانا، ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف منتقل ہونا۔ (۲)..... موت کی شدت اور سختی: الشیخ عبدالرحمن بن عبداللہ الغیث موت کی شدت اور اس کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں : ابو ہدبہ ابراہیم بن ہدبہ بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ الْعَبْدَ لَیُعَالِجُ کَرَبَ الْمَوْتِ وَسَکَرَاتِ الْمَوْتِ وَاِنَّ
Flag Counter