Maktaba Wahhabi

85 - 242
تو یزیدکی بیوی ہندہ دختر عبداللہ بن عامر بے تاب ہو کر بے پردہ مجلس یزید میں چلی آئی، یزید نے دوڑ کر اس کے سر پر کپڑاڈال دیا اورکہا گھر میں چلی جا اور گھر میں جا کر فرزند رسول خدا بزرگ قریش پر نوحہ و زاری کر، ابن زیاد نے ان کے بارے میں جلدی کی، میں ان کے قتل پر راضی نہ تھا۔‘‘[1] دوسرا نوحہ گر: یزید اور اس کے خاندان کے بعدمختاربن ابی عبید ثقفی نے نوحہ اور ماتم کو رواج دیا۔ وفات کی اطلاع دینا: مرنے والے کے احباب اور رشتہ داروں کو اس کی موت کی اطلاع دینا جائز ہے، مگر اطلاع کے ساتھ ساتھ اس کی بہادری، اس کے فضائل اور اس کی وجاہت کا بیان کرنا اور ڈھنڈورچی کا انتظام کرنا منع اور حرام ہے۔ آج کل لاؤڈ سپیکر کے ذریعے جس انداز سے بازاروں میں شور ڈالا جاتا ہے اورمسجدوں کے محرابوں اور میناروں پر سے منادی کی جاتی ہے یہ سب طریقے ناجائز اور خلاف شرع ہیں ۔ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اَلْاِعْلَانُ عَنْ مَوْتِہٖ عَلٰی رُؤُوْسِ الْمَنَائِرِ وَنَحْوِھَا مِنَ النَّعْیِ ‘‘[2] تاہم متعلقہ لوگوں کو بلا تکلف اطلاع کی حد تک جواز کی گنجائش ہے جیسا کہ روایات سے اس طرف راہنمائی ہے، علامہ عبدالحئی نے لکھا ہے کہ صاحب علم اور زاہد لوگوں کے جنازوں کا اعلان کرنا بعض متاخرین حنفیہ نے مستحسن قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں : ((قَدِ اسْتَحْسَنَ بَعْضُ الْمُتَاَخِّرِیْنَ النِّدَائَ فِی الْاَسْوَاقِ لِلْجَنَازَۃِ الَّتِیْ یُرَغِّبُ النَّاسَ))[3]
Flag Counter