Maktaba Wahhabi

240 - 523
علامہ شمس الدین خیالی کی تحقیق محقق شمس الدین خیالی حاشیہ’’ شرح عقائد ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ علماء اہل ِ سنت کا اصول ہے کہ اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہ کہا جائے۔‘‘اس سے مراد یہ ہے کہ اجتہادی مسائل کے انکار پر(کسی اہل قبلہ کو) کافر نہ کہا جائے، اس لیے کہ جو شخص ضروریات دین میں سے کسی امر کا انکار کرے، اس کی تکفیر میں مطلقاً کوئی اختلاف نہیں ہے،(ایسا شخص متفقہ طور پر کافر ہے)۔ علاوہ ازیں یہ أصول(کہ اہل قبلہ کو کافر نہ کہا جائے) صرف امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ اور ان کے بعض متبعین کا قول ہے۔ باقی تمام اشاعرہ شیخ اشعری سے اس اصول میں متفق نہیں ہیں،اور یہی وہ تمام اشاعرہ ہیں جو معتزلہ اور شیعہ کو ان کے بعض عقائد(جس کا اوپر تذکرہ آیا ہے) کی بنا پر کافر کہتے ہیں۔ لہٰذا ان ہر دو اقوال کو جمع کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، اس لیے کہ قول أول کے قائلین خود آپس میں متفق نہیں ہیں۔‘‘ علامہ شاہ عبد العزیز صاحب کااعتراض آپ فرماتے ہیں: ’’ اور دوسرا جواب اس پر مبنی ہے کہ دونوں قولوں کے قائلین الگ الگ ہیں،(حالانکہ واقعہ یہ نہیں ہے، بلکہ) جولوگ اس اصول کے قائل ہیں، وہی عقیدہ خلق قرآن پر، سب وشتم پر، عالم کو قدیم ماننے پر، علم ِ جزئیات کے انکار پر تکفیر بھی کرتے ہیں۔‘‘ میر سید شریف کی تحقیق آپ ’’شرح مواقف ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’ یاد رکھو اہل ِ قبلہ کو کافر نہ کہنا یہ شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ اور فقہاء کی تحقیق ہے،-جیساکہ اس سے پہلے بیان ہوچکا-۔لیکن جب ہم گمراہ فرقوں کے عقائد کی چھان بین کرتے ہیں تو ان میں بہت سے ایسے عقائد ملتے ہیں جو قطعاً موجب کفر ہیں، مثلًا، 1۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اورمعبودِ-برحق-کے وجود یاکسی انسان میں اس کے حلول سے متعلق عقائد۔ 2۔ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے انکار یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وذم سے متعلق عقائد وأقوال 3۔ یا محرمات شرعیہ کاحلال اور فرائض ِ شرعیہ کو ساقط قرار دینا۔(لہٰذا ہم شیخ اشعری اورفقہاء رحمۃ اللہ علیہم کے اس اصول سے اتفاق نہیں کرسکتے، بلکہ اگر کوئی مسلمان فرقہ موجب کفر عقائد، واعمال واقوال کو اختیار کرے گا،تو ہم اس کو ضرور کافر کہیں گے، اگرچہ وہ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا اور خود کو مسلمان کہتا ہو)‘‘[1] علامہ شامی رحمہ اللہ ردّ المحتار ج 1/ 377، مسئلہ امامت کے تحت اور ج 1 ص 622 مسئلہ ’’ انکار ِ وتر ‘‘کے تحت
Flag Counter