Maktaba Wahhabi

248 - 523
اس لیے ان کے معانی کو اسی کی طرف تفویض کردیتے ہیں۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی آیات نازل فرمائیں جو اس کے بندوں کی سمجھ سے بالا تر ہیں، اور اس طرح انہیں کئی الجھنوں میں مبتلا کردیا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور اس کے مطابق عقیدہ رکھنے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ پھر اس میں کسی قسم کی پیچیدگی کا امکان کیونکر ممکن ہے ؟ بلکہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ ان آیات و احادیث کا معنی وہی ہے جو الفاظ سے ثابت ہے، جسے عام طور پر عربی زبان کی بول چال میں سمجھا جاتاتھا۔ مگر ہم اس کی کیفیت کو نہیں سمجھ سکتے، ہم اس کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی تفویض کرتے ہیں۔ اس لیے کہ قاعدہ یہ ہے کہ ’’ القول في الصفات کالقول في الذات ‘‘ ’’ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کلام کرنا ایسے ہی ہے جیسے اس کی ذات میں کلام کرنا۔‘‘ صفت نزول مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وقولہ صلي اللّٰه عليه وسلم، ’’ إِنَّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ یَنْزِلُ إِلَی سَمَائِ الْدُّنْیَا۔)) [1] ’’اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، ’’ بیشک اللہ تبارک وتعالیٰ آسمانی دنیا کی طرف نازل ہوتے ہیں۔‘‘ شرح، … اللہ تعالیٰ کا آسمانی دنیا پر نازل ہونا جن صحیح احادیث سے ثابت ہے، کافی تعداد میں صحیح احادیث ہیں، ان ہی میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ینزل ربنا تبارک وتعالیٰ کل لیلۃ إلی سماء الدنیا، حین یبقی ثلث اللیل الأخیر، فیقول،’’من یدعوني فأستجیب لہ،ومن یسألني فأعطیہ، ومن یستغفرني فأغفر لہ)) [2] ’’ہمارا بزرگ اور بلند شان والا رب ہر رات آسمانی دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے، جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی ہوتا ہے، اور وہ فرماتا ہے، ’’ کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اسے جواب دوں، اور کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے نواز دوں، اورکون ہے جو مجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور میں اسے معاف کردوں۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ اور ابو سعید-خدری-رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب آدھی رات کا وقت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمانی دنیا پر-اپنی شان کے مطابق-نازل ہوتے ہیں،اور
Flag Counter