Maktaba Wahhabi

252 - 523
الذِّکْرَی﴾(الفجر، 22) ’’ اور تمہارا پروردگار(جلوہ فرما ہو گا) اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہونگے۔اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی تو انسان اس دن متنبہ ہو گا مگر تنبیہ(سے) اسے(فائدہ) کہاں(مل سکے گا)۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا أَن یَأْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآئِکَۃُ وَقُضِیَ الأَمْرُ وَإِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الأمُورُ﴾(البقرۃ، 210) ’’کیا لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر اللہ(کا عذاب) بادل کے سائبانوں میں آ نازل ہو اور فرشتے بھی(اتر آئیں) اور کام تمام کر دیا جائے اور سب کا موں کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے۔‘‘ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لیے تشریف لائیں گے۔ اصل میں مذکورہ بالا اور اس جیسی احادیث اور آیات سے اللہ تعالیٰ کی صفت ’’آنا ‘‘ثابت کرنا ہے۔ نیز یہ ان لوگوں پر رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے دیدار کے منکر ہیں۔ [1] دوڑنے کی صفت مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں، وقول اللّٰه [تعالیٰ ] للعبد،((إن مشیت إليَّ ھرولت إلیک)[2] وقولہ صلي اللّٰه عليه وسلم،((وإن اللّٰه تعالیٰ ینزل یوم عرفۃ))[3] و قولہ صلي اللّٰه عليه وسلم،((إن اللّٰه تعالیٰ خلق آدم علی صورتہ))[4] (مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں)، اوربندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان،(حدیث قدسی) ’’اگر تو میری طرف چل کر آئے تو میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔‘‘اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، ’’ بیشک اللہ تعالیٰ یوم عرفہ میں نازل ہوتے ہیں۔‘‘اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان، ’’ بیشک اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔‘‘ شرح، … حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی ایک مارے تو چہرے سے بچ کر رہے، بیشک اللہ تعالیٰ نے انسان کواس کی صورت پر
Flag Counter