Maktaba Wahhabi

262 - 523
جو نہیں ہوئیں، اگر وہ ہوجاتیں تو کیسے ہوتیں۔اور جو انسان یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو صرف ان چیزوں کا علم ہے جو ہوگئی ہیں، اور جو ہونے والی ہیں، تو یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا ارتکاب کررہا ہے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے علم کو صرف پیش آنے والے حوادث تک محدود کرتے ہیں، اور جو کچھ ابھی نہیں ہوا، اس کا علم اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں مانتے سو وہ بھی کافر ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں گروہ اللہ تعالیٰ کے علم میں نقص نکال رہے ہیں۔ جب کہ اہل سنت و الجماعت اللہ تعالیٰ کے علم کو ہر لحاظ سے کامل اور محیط مانتے ہیں، کوئی بھی چیز اس کے علم سے باہر نہیں نہ سمجھتے خواہ وہ ہوچکی ہو، یا نہ ہوئی ہو،یا ہونے والی ہو۔ باب،… معاملات کے بیان میں 56۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((لانکاح إلا بولي وشاہدي عدل و صداقٍ قل أوکثر، ومن لم یکن لہ ولي فالسلطان ولي من لاولي لہ۔)) ’’اور ولی، دو عادل گواہوں اور مہر کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا۔ خواہ مہر کم ہو یا زیادہ اور جس کا کوئی ولی نہ ہو، حکمران اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہیں ہے۔ ‘‘ شرح، … یہ فقہی مسئلہ ہے جسے مصنف رحمہ اللہ نے عقائد کے ضمن میں ذکر کیا ہے۔جس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ بعض لوگ یہ سوچ رکھتے ہوں کہ نکاح میں ولی کا ہونا یا نہ ہونا عقیدہ سے متعلق ہے۔مصنف رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں جمہور کے ہاں نکاح صحیح ہونے کی شرطوں کا بیان ہے، ان شرائط میں سے، 1۔ ولی کا ہونا 2۔ گواہوں کا ہونا 3۔ اور مہر مقرر کیا جانا ہے۔ کوئی عورت خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی، اورنہ ہی کوئی عورت کسی عورت کا نکاح کرسکتی ہے اور نہ ہی نکاح چپکے سے بالکل چھپ کر ہوسکتا ہے۔اس کے لیے گواہوں کا ہونا لازمی ہے۔ نکاح میں گواہوں کے مسئلہ پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ جب کہ ولی کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اختلاف کیا ہے۔آپ فرماتے ہیں:’’ بغیرولی کے نکاح درست ہے۔‘‘مگر کتاب و سنت کے دلائل اس کے عکس ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً روایت ہے، ((لا نکاح إلا بولي وشاہدي عدل، وما کان علی غیر ذلک فہو باطل،فإن تشاجروا فالسلطان ولي من لا ولي لہ))[1] ’’ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا، جو اس کے علاوہ نکاح ہو، وہ باطل ہے اور اگر ان کا آپس میں جھگڑا ہوجائے تو حاکم اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو۔‘‘
Flag Counter