Maktaba Wahhabi

303 - 523
قسمیں ہیں: 1-: نصوص سے بغض و کراہت یہ بھی طعن کی ایک قسم ہے۔بہت سارے اہل ِھوائ(گمراہ) فرقے ان نصوص کا ذکر کرنا نا پسند کرتے ہیں، جو ان کی خواہشات کے خلاف ہوں، بھلے وہ نص قرآنی آیت ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ یہ نصوص ان کے مبداء کے خلاف ہیں، جس کی وجہ سے ان کے عقائد کی پوری عمارت کا گر جانا یقینی ہوجاتا ہے۔ اس لیے بہت سے اہل ِ ھواء ایسی نصوص کو صرف طعن، یا ان میں شک پیدا کرنے، یا ان کی تأویل اور رد کے لیے ذکر کرتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفات کا اثبات ہو۔ 2-:رد ِمباشر(براہ راست رد): کبھی نصوص پر طعن ان کے فوری طور پر رد کرنے کی صورت میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ جہمیہ کی مذہب ہے۔وہ قرآن و سنت کی نصوص کا بالکل انکار کرتے تھے۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ عام لوگ اور اہل علم دلائل کے ساتھ بات کرتے ہیں، اور نصوص کو براہ ِ راست رد کردینے سے انہیں عوام میں پذیرائی نہیں مل رہی تو انہوں نے نصوص میں تأویل کرنا شروع کردی، جیساکہ بشربن حارث المریسی نے کیا۔یہی حال ہمارے اس دور میں نام ِ نہاد اہل ِ عقل ’’عقل پرست ‘‘لوگوں کا ہے، جو دجال، مہدی، اورقیامت کی نشانیوں کے بارے میں اور دیگر غیبی امور سے تعلق رکھنے والی احادیث اور نصوص کا ذکر مذاق اور رد کے طور پر کرتے ہیں، ایمان کے طور پر نہیں۔ جیساکہ بلاد ِ ہند و پاکستان میں سر سید أحمد خان اور اس سے پہلے مرزا غلام أحمد قادیانی ملعون، اور اسی طرح پرویزی اور چکڑالوی فرقوں نے کیا۔ 3-:تشکیک: ایسے شکوک و شبہات پیدا کرنا، طنز کرنا،نصوص میں تأویل کرنا اور بعض راویوں کا ٹھٹھہ اڑانا، بعض احادیث کے الفاظ بطور ِ مسخرہ پن کے ذکر کرناتاکہ لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوں یا کم از کم حدیث کی قدرو منزلت میں کمی آجائے۔ یہ سب نصوص کے رد کرنے کے ضمن میں آتاہے۔ 4-: دعویء مشابہت: بعض نصوص کے متعلق-بغیر علم و تحقیق کے-یہ دعوی کرنا کہ یہ متشابہ ہے، تاکہ وہ اس طرح سے نصوص کو ترک کرسکیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے غیبی امور سے متعلق کوئی چیز ایسی نہیں ذکر کی جس کے معانی لوگوں پر متشابہ ہوں۔ 5-: دعوی عدم حجیت ِ آحاد: بعض لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ حدیث آحاد عقیدہ میں حجت نہیں ھوسکتیں۔ یہ بھی حدیث میں ایک قسم کا طعن ہے۔بعض لوگ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تفریق کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں متواتر حدیث علم کا فائدہ دیتی ہے، اور خبر
Flag Counter