Maktaba Wahhabi

309 - 523
5۔ حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((’ لکل أمۃ مجوس، وإن مجوس ہذہ الأمۃ القدریۃ، فلا تعودوہم إذا مرضوا، ولا تصلوا علیہم إذا ماتوا)) [1] ’’بیشک ہر ایک امت میں مجوس ہوتے ہیں اورقدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اوراگر مر جائیں تو ان پر نماز جنازہ مت پڑھو۔‘‘ ذیل میں تقدیر کے بارے میں اہل ِ سنت و الجماعت کا عقیدہ بیان کیا جارہا ہے۔ تقدیر پر ایمان کیوں؟ 72۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((والکلام والجدال و الخصومات في القدر خاصۃ منہي عنہ [عند] جمیع الفرق، لأن القدر سِرٌّ اللّٰه، ونہی الرب تبارک وتعالی الأنبیاء عن الکلام في القدر، ونہی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم عن الخصومۃ في القدر، [وکرہہ أصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم والتابعون]، وکرہہ العلماء وأہل الورع۔و نہوا عن الجدال في القدر، فعلیک بالتسلیم و الإقرار والإیمان، و اعتقاد ما قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في جملۃ الأشیاء، وتسکت عما سوی ذلک۔)) ’’اور کلام، اور جھگڑا، اور کٹ حجتی خصوصاً قدر-تقدیر-کے مسئلہ میں، تمام فرقوں کے ہاں ممنوع ہے۔ اس لیے کہ’’ قدر‘‘ اللہ تعالیٰ کا راز ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھی قدر(تقدیر) میں کلام کرنے سے منع کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر کے بارے میں جھگڑنے سے منع کیا ہے، [اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین اس کو مکروہ(حرام) سمجھتے تھے]۔اور اہل ورع متقی علماء اس کو مکروہ جانتے تھے اور انہوں نے تقدیر میں جدال کرنے سے منع کیا ہے۔آپ پر اس کو ماننا، اس کا اقرار کرنا اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور ہر اس چیز پر اعتقاد جوان تمام امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اوراس کے علاوہ باقی پر خاموش رہنا[واجب ہے]۔‘‘ شرح: … قضا وقدر پر ایمان ارکان ایمان میں سے ایک ہے۔ قضا و قدر یہ ہے کہ: ’’ وہ تمام امورجن کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ازل میں کردیا، اور جو چیزیں نوشتہ ء تحریرمیں آچکی ہیں، وہ ہوکر رہیں گی، کوئی بھی چیز اچانک او رہنگامی طور پر رو پذیر نہیں ہوجاتی۔ بلکہ اس کا پہلے سے اللہ تعالیٰ کو علم ہوتا ہے، اور وہ اس کی مشیت اور ارادہ کے مطابق ہوتی ہے
Flag Counter