Maktaba Wahhabi

313 - 523
﴿عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوَیo ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَیo وَہُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَیo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَیo فَأَوْحَی إِلَی عَبْدِہٖ مَا أَوْحَیo مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَیo أَفَتُمَارُونَہُ عَلَی مَا یَرَیo وَلَقَدْ رَآہٗ نَزْلَۃً أُخْرَیo عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہَیo عِندَہَا جَنَّۃُ الْمَأْوَیo إِذْ یَغْشَی السِّدْرَۃَ مَا یَغْشَیo مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَیo لَقَدْ رَأَی مِنْ آیَاتِ رَبِّہٖ الْکُبْرَیo﴾(النجم: 5-18) ’’ ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا۔(یعنی جبرائیل) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے اور وہ(آسمان کے) اونچے کنارے میں تھے۔ پھر قریب ہوئے اور اَور آگے بڑھے۔ تو دو کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم۔ پھر اللہ نے اپنے بندے کی طرف جو بھیجا سو بھیجا۔ جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے اس کو جھوٹ نہ جانا۔ کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہواور انہوں اس کو ایک اور بار بھی دیکھا ہے۔ پرلی حد کی بیری کے پاس۔ اسی کے پاس رہنے کی جنت ہے۔ جب کہ اس بیری پر چھا رہا تھا جو چھا رہا تھا۔ ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ(حد سے) بڑھی۔ انہوں نے اپنے پروردگار(کی قدرت) کی کتنی ہی بڑی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘ معراج جسمانی ہوئی اس بارے میں اختلاف کیا گیاہے کہ کیا معراج روح کو ہوئی تھی یا جسمانی تھی۔ اس میں صحیح اور ارجح ترین قول یہی ہے کہ اسراء و معراج جسمانی تھے۔جیساکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے: صحیح یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآپ کے جسدِ مبارک کے ساتھ رات کے وقت مسجدِ حرام سے بیت المقدس بُراق پر سوار کرکے لے جایا گیا، آپ کے ساتھ جبریل علیہ السلام تھے، وہاں آپ اُترے اور ابنیاء کرام علیہم السلام کو امام بن کر نماز پڑھائی، اور بُراق کو مسجد کے دروازے کی کنڈی کے ساتھ باندھ دیا، پھر آپ کو اسی رات بیت المقدس سے آسمانِ دنیا کی طرف لے جایا گیااور پھر وہاں سے آگے ساتوں آسمانوں کی سیر کی۔ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا آپ نے اس رات اپنے ربّ کو دیکھا تھا؟حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی صحیح قول یہی ہے کہ آپ نے اپنے ربّ کو دیکھا، اور ان سے یہ بھی صحیح مروی ہے کہ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو اپنے دل کے ذریعہ دیکھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اورحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قول: ﴿وَلَقَدْ رَاٰہُ نَزْلَۃً اُخْرٰیo عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَہٰیo﴾(النجم: 13۔14) …’’اور انہوں نے اس فرشتہ کو دوسری بار بھی دیکھا، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس۔‘‘ … سے مراد جبریل ہیں۔
Flag Counter