Maktaba Wahhabi

323 - 523
ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز پڑھا کرو۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَلَمَّا أَتَاہَا نُودِیْ مِن شَاطِئِ الْوَادِیْ الْأَیْمَنِ فِیْ الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ أَن یَا مُوسَی إِنِّیْ أَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَo﴾(القصص: 30) ’’ جب اس کے پاس پہنچے تو میدان کے دائیں کنارے سے ایک مبارک جگہ میں ایک درخت میں سے آواز آئی کہ موسیٰ میں تو اللہ رب العالمین ہوں۔‘‘ معتزلہ کی تأویل بالکل بودی اور ناکارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے درخت میں کلام ڈال دیا تھا، اور درخت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ درخت وغیرہ کسی بھی غیر اللہ کے لیے یہ بات محال ہے کہ وہ اللہ رب العالمین ہونے کا دعوی کرے جیسا کہ آیت مذکورہ کے آخر میں ہے۔ احادیث سے رد احادیث میں بھی اس کے کئی دلائل ہیں، ان میں سے: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حضرت موسی علیہ السلام نے کہا: اے رب ! مجھے حضرت آدم علیہ السلام دکھا دے جس نے ہمیں بھی اور اپنے آپ کو جنت سے نکالا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام دکھا دیے۔ تو-حضرت موسیٰ علیہ السلام نے-کہا: ’’ کیا آپ ہمارے باپ آدم ہیں ؟ آدم علیہ السلام نے کہا: ہاں۔ تو-حضرت موسیٰ علیہ السلام نے-کہا: ’’کیا آپ وہی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی، اور آپ کوتمام اسماء کی تعلیم دی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ آپ کو سجدہ کریں۔انہوں نے کہا: ہاں۔ تو-حضرت موسیٰ علیہ السلام نے-کہا: ’’تو آپ کو کس چیز نے اس بات پر ابھارا کہ آپ ہمیں بھی اور اپنے آپ کو جنت سے نکالیں؟۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا: تم کون ہو ؟ کہا: میں موسیٰ ہوں؟ کہا: آپ بنی اسرائیل کے وہ نبی ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے پردہ کے پیچھے سے کلام کیا، اور اپنے اور آپ کے درمیان اپنی مخلوق میں سے کسی کو پیغام رساں نہیں بنایا ؟ فرمایا: ہاں۔ تو-حضرت آدم علیہ السلام نے-کہا: کیا تم نے کتاب میں نہیں پایا کہ یہ بات میرے پیدا کیے جانے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں کتاب میں لکھی جاچکی تھی ؟-موسیٰ علیہ السلام نے-کہا: ہاں،-ایسا پایا ہے-۔ توفرمایا: تو پھر ایسی چیز میں مجھے ملامت کیوں کرتے ہیں جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے ہی کردیا تھا ؟۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام نے موسیٰ پر حجت قائم کرد ی۔‘‘[1] اس حدیث سے استدلال کی وجہ موسی علیہ السلام کے لیے حضرت آدم علیہ السلام کا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا ذکر کرنا ہے۔
Flag Counter