Maktaba Wahhabi

385 - 523
انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے وہ کامل ایمان والا ہوجاتا ہے۔ خواہ وہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے، روزہ رکھے یا نہ رکھے۔ایسے باقی عبادات کے متعلق بھی کہتے ہیں۔‘‘ ٭ اور ان کاکہنا ہے کہ:’’ نہ ہی عیدین کی نماز ہے اور نہ ہی صدقہ ہے۔‘‘کیونکہ ان کے ہاں اعمال ایمان کا حصہ نہیں ہیں، صرف زبان سے اقرار کافی ہوجائے گا۔ یہ ان فرقوں-جہمیہ، معتزلہ اور اس وقت کے رافضیوں-کے وہ عقائد ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ لا علم ہیں۔ بلکہ ہر زمانے میں لوگوں کی اکثریت ان فرقوں کی اصلیت اور حقیقت سے نا واقف ہی رہی ہے، اس کی وجہ ان(گمراہ فرقوں کے) لوگوں کا اپنے عقائد کو چھپائے رکھنا اور اس کے خلاف ظاہر کرنا ہے۔ مذکورہ بالا ان عقائد کا اصل سبب یہ ہے کہ مذکورہ فرقے کسی بھی حکمران-خاص کر اہل ِ سنت-کی حکومت کو جائز نہیں سمجھتے۔-گویا کہ وہ ان کی حکومت میں کافرحکومت کے نیچے دار حرب میں رہتے ہیں-، اس وجہ سے وہ جمعہ اور با جماعت نماز اور عیدین، اور زکوات کو ساقط کہتے ہیں۔ دوسری وجہ: پھر ان کے کافر ہونے کا دوسرا سبب بیان کرتے ہیں، کہ-اس فرقہ کے لوگ کہتے ہیں-: ’’ جو یہ بات نہیں کہتا کہ قرآن مخلوق ہے، وہ کافر ہے۔‘‘اس بلا وجہ کفر کے فتوی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خود ہی کافر ہوں، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((أیما امریئٍ من قال لأخیہ یا کافر، فقد بائَ بأحدِھما، إن کان کما قال، و إلا رجعت علیہ))[1] ’’جس بھی اپنے-مسلمان-بھائی کو کافر کہا، وہ دو میں سے ایک کے ساتھ لوٹتا ہے۔اگر اس نے جیسے کہا، ویسا ہی تھا،-تو ٹھیک ہے-، ورنہ اس کی بات اس پر ہی لوٹتی ہے۔‘‘ حدیث میں: ’’وہ ان دو میں سے ایک چیز کے ساتھ واپس لوٹتا ہے۔‘‘مرادیہ ہے کہ یا تو وہ اس فتوی کے جاری کرنے میں سے سچا ہے، علم اور دلیل کی روشنی میں کسی کفریہ کام کے مرتکب ہونے پر یہ فتوی دے ر ہاہے تو اس کا یہ حکم لگانا درست ہے اور اگر جہالت اور تعصب کی وجہ سے کسی مسلمان کوکافر کہتا ہے توگویا کہ اس کے دین اور مذہب کو غلط قرار دے رہا ہے جو اللہ کے ہاں صحیح او ردرست ہے، تو اس وجہ سے وہ خود ہی کافر ہوا۔‘‘ تیسری وجہ: مصنف رحمہ اللہ ان کے کافر ہونے کی تیسری وجہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’ ا نہوں نے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لوگوں کا قتل کرنا حلال قرار دیا۔‘‘
Flag Counter