Maktaba Wahhabi

523 - 523
’’اورہم نے آدمی کواپنے ماں باپ کے لیے(اچھاسلوک کرنے کا) حکم دیا ماں نے تو اس کوتھک تھک کر(اپنے میٹ میں) اٹھایا اور دوبرس میں(کہیں) اس کا دودھ چھوٹا(ہم نے آدمی کو یہ حکم دیا) کہ میرا شکر کرتارہ اوراپنے ماں باپ کا اور(آخر) تجھ کو میرے پاس لوٹ کر اناہے۔اور اگر تیرے ماں باپ زور زبردستی سے یہ کہیں کہ اللہ کے ساتھ ان کو شریک کر جن کے شریک ہونے کی تیرے پاس کوئی سند نہیں تو ان کا کہنا مت مان او ردنیا میں ان کے ساتھ دستور کے موافق رہ…۔‘‘ اور دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا: ﴿وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَ اِنْ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo﴾(العنکبوت: 8) ’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے(اے مخاطب) اگر تیرے ماں باپ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے جس کی حقیقت سے تجھے واقفیت نہیں تو اُن کا کہنا نہ ماننا تم(سب) کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے پھر جو کچھ تم کرتے تھے میں تمہیں جتاؤں گا۔‘‘ یہ بھی حقیقی اہل ِ سنت کا امتیازی وصف ہے کہ ان کی سمع و طاعت، محبت، بغض، لین دین، بات چیت اور خاموشی سب کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوتا ہے۔یہ بات ایمان کی نشانی اور باعث اجرو ثواب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من أعطی للّٰه، ومنع للّٰه، وأحب في اللّٰه، وأبغض في اللّٰه فقد استکمل الإیمان))[1] ’’جو اللہ کے لیے کسی کوکچھ دے، اور اللہ کے لیے ہی روک لے، اور جو اللہ کے لیے ہی محبت کرے، اور اللہ کے لیے ہی بغض کرے، تحقیق اس کاایمان مکمل ہوگیا۔‘‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ نہ ہی اہل خیر پر خود کوئی ظلم کرے اور نہ ہی اہل خیر کے خلاف ظالموں کی مدد کرے اورنہ ہی ظالم یا ظلم سے محبت و دوستی رکھے، بلکہ ان سے نفرت و بیزاری رکھے، اور ہوسکے تو ان کی اصلاح کی کوشش کرے، جیسا کہ حدیث میں اس کا حکم موجود ہے۔ توبہ کا حکم 170۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((والإیمان بأن التوبۃ فریضۃ علی العباد، وأن یتوبوا [ إلی اللّٰه عز و جل ] من کبیر المعاصي و صغیرہا۔))
Flag Counter