Maktaba Wahhabi

533 - 523
إلی موسیٰ بن عمران(علیہ السلام): لا تجالس أہل البدع، فإن جالستہم فحاک في صدرک شيء مما یقولون أکببتک في نار جہنم۔‘‘)) ’’امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ جس نے بدعتی کی بات کان لگاکر سنی، وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے باہر ہوگیا، اور اسے اس کے سپرد کردیا گیا، [یعنی بدعت کے سپرد][1]۔ حضرت داؤد بن ہند[2] رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی طرف وحی کی:’’ اہل ِ بدعت کے ساتھ نہ بیٹھنا۔ اگر تم اہل بدعت کے ساتھ بیٹھے اور تمہارے دل میں ان کی باتوں سے کچھ کھٹکا پیدا ہو تو میں تجھے جہنم کی آگ میں اوندھے منہ ڈال دوں گا۔‘‘[3] شرح: … حضرت امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا فرمان:(جس نے بدعتی کی بات کان لگاکر سنی، وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے باہر ہوگیا…): اس سے مراد یہ ہے کہ بدعتی کی بدعات بھری باتیں سنتا رہے مگر ان پر انکار نہ کرے اور اہل بدعت کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور میل جول رکھے، وہ بھی ان کے ساتھ ہی ہلاک ہوجائے گا۔ پس یہ جائز نہیں ہے کہ اہل ِ بدعت کی باتوں پر کان دھرے جائیں، اور یہ کہا جائے کہ میں بڑا پکا مؤمن ہوں، عقیدہ کے امور کو جانتا ہوں، ان کی باتیں مجھ پر کچھ بھی اثر انداز نہ ہوں گی۔یہ صرف ایک دھوکہ ہے۔یقینا انسان فتنہ میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ اس لیے ان سے دور رہنے اور ان کی جھوٹ موٹ من گھڑت باتوں کی سماعت سے اجتناب کرنے میں عصمت و بھلائی ہے۔ او رجو انسان ان کی بدعات بھری باتیں سنتا ہے، مگر اس بدعت پر انکار نہ کرتا، اسے بھی اس بدعت کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جو کوئی(اپنے دین و ایمان کی) حفاظت چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرتے ہیں، اور جو کوئی اہل بدعت کی باتیں سنتا اور ان پر کان دھرتا ہے وہ اس لائق ہے کہ اسے فتنہ میں مبتلا کیا جائے۔ ایسا انسان اللہ کے ذمہ سے بری ہوجاتا ہے۔ اہل بدعت کا اثر حضرت داؤد بن ہند رحمہ اللہ کافرمان کہ:(اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی طرف وحی کی:’’ اہل ِ بدعت کے ساتھ نہ بیٹھنا …): یہ اثر بدعت کے مضر اثرات ظاہر کرنے کے لیے لایاگیا ہے۔اس سے ایک مسئلہ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی کام اگر نبی کی موجودگی میں بھی کیا جائے، جب تک اس پر مہرنبوت نہ لگ جائے اس وقت تک وہ کام سنت نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی کسی کے لیے حجت بن سکتا ہے۔اور نبی اللہ موسیٰ علیہ السلام کو اہل بدعت کے ساتھ بیٹھنے سے منع کیا گیا ہے کہ کہیں اس
Flag Counter