Maktaba Wahhabi

116 - 222
خدا کا مظہر ہے صوفی اشرف علی صاحب تھانوی شمائم امدادیہ ص ۶۱۔۶۲ پر فرماتے ہیں انھوں نے اپنے پیرومرشد حاجی امداد اللہ سے پوچھا کہ صوفیاء کی بعض کتب میں ابلیس کی مدح پائی جاتی ہے چونکہ توحید و عشق اس کاا علی درجے کا تھا سجدہ آدم گوارانہ کیا حضرت حاجی صاحب نے فرمایا ابلیس نابکار نے ظاہر پر نظر کی اور کہا(خلقتنی من نارو خلقتہ من طین)یہ نہ سمجھا کہ یہ خطاب کس نے فرمایا ہے اور واجب الاتباع ہے اور نظر باطن پر نہ کی کہ آدم مظہر کس کے ہیں کیا بیت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں حالانکہ وہ پتھروں سے بناگیا ہے نہیں چونکہ وہ خدا کا مظہر ہے پس مسجود الیہ ہوا اور وہ نابکار مظہر(مضل)گمراہی تھااپنی حقیقت میں واصل ہوا اور اپنی مراد کو پہنچا۔ایک درویش بھی اس کو عاشق کہتے تھے اور یہ کہ بے مراد ہے غلط ہے کیونکہ معنی بے مرادی عاشق کے اور ہیں کہ وصال معشوق میں اس طرح فنا ہوجائے کہ لذت وصال و مکالمات کی نہ پائے۔اس مقام پر صوفی امداد اللہ نے ابلیس کے بارے میں لفظ مظہر استعمال کیا ہے۔مظہر کا معنی ہے ظاہر ہونے کی جگہ جیسے کہا جاتا ہے مطعم،کھانے کی جگہ،مقتل،قتل ہونے کی جگہ،آدم علیہ السلام اور بیت الحرام کو مظہر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اللہ کے ظاہر ہونے کی جگہ ہیں۔صوفیاء صرف ان ہی کو مظہر نہیں کہتے بلکہ ان کے نزدیک کائنات میں موجود ہر ایک جگہ ہر شیٔی اس کا مظہر ہے اس لئے صوفی صاحب مذکورنے اپنے اس بیان میں ابلیس کو بھی اللہ تعالیٰ کا مظہر کہا ہے مظہر(مضل)کہنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی ایک صفت(مضل)بھی ہے۔قرآن کریم میں ہے(یضل بہ کثیرا)(البقرۃ)یعنی اللہ تعالیٰ اس کے
Flag Counter