Maktaba Wahhabi

189 - 222
خاوند کا لفظ بول کر خدا وند تعالیٰ بھی مراد لیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا اس صوفی نے اپنے پیر کو اس لئے خاوند کہا کیونکہ وہ اس کے ہاں اللہ تعالیٰ کا مظہر تھا اور شاید اس لئے قوم الیاس اپنے بت بعل کو رب تعالیٰ سمجھ کر اس کی عبادت کیا کرتی تھی۔اس صوفی کو اپنے پیر کو خاوند کہنے پر شرم نہیں آئی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ احمقوں کی جنت میں رہنے والا صوفی عقل سے عاری ہوتا ہے۔ اشرف علی صاحب کے خاص مرید نے ایک باران سے کہا ’ حضرت بار بار میرے دل میں خیال آتا ہے کہ کاش میں عورت ہوتا حضور کے نکاح میں ‘ اس اظہار محبت پر حضرت والا غایت درجہ مسرور ہو کر بے اختیار ہنسنے لگے اور یہ فرماتے ہوئے مسجد میں تشریف لے گئے کہ یہ آپ کی محبت ہے تو ثواب ملے گا ثواب ملے گا انشاء اﷲ تعالیٰ۔(اشرف السوانح ص ۲۸ ج ۲)۔مرید کی پست سوچ آپ نے ملاحظہ کی اور پیر کی ترغیب بھی سچ ہے جیسی روح ویسے فرشتے۔ خدا کو خدا سے کیا ڈر فرمایا کہ اکثر لوگ توحید و جودی میں غلطی کرکے گمراہ ہوجاتے ہیں تمثیل بیان فرمائی کہ کسی گرو کا چیلہ توحید وجودی میں مستغرق تھا راستے میں ایک فیل(ہاتھی)مست ملا اس پر فیل بان پکارتا آتا تھا کہ ہاتھی مست ہے میرے قابو میں نہیں اس چیلے کو لوگوں نے منع کیا مگر وہ نہ مانا اور کہا کہ وہی تو ہے اور میں بھی وہی ہو ں خدا کو خدا سے کیا ڈر آخر ہاتھی نے اسے مارڈالا جب اس کے گرونے یہ سنا گالی دے کر کہا کہ ہاتھی جو مظہر مضل تھا اس کو تو دیکھا اور فیل بان کو کہ
Flag Counter