Maktaba Wahhabi

100 - 105
امیرِ درعیہ امام محمد بن سعود اور آل ِ سعود نے دعوت قبول کی اور بھر پور تعاون بھی کیا۔لہٰذا آپ نے درعیہ کو دعوت کا مرکز بنا لیا۔وہیں درس وتدریس اور تصنیف وتالیف شروع کردی۔اِردگرد سے طلباء حصولِ علم کے لیے آنے لگے۔اس طرح دعوت عام ہوگئی۔کیونکہ جو طلبہ آتے وہ داعیان ِ توحید بن کر واپس جاتے۔ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اور امام محمد بن سعود [1] کا وفاق دعوت ِ توحید کی ترویج واشاعت میں بہت مفید ثابت ہوا کیونکہ شیخ صاحب ِ علم وحجّت تھے اور امیر صاحب ِ عَلَم وطاقت۔دعوت ِ توحید کے لیے شیخ کو امیر کے ہاں مرکز مل گیا اور شیخ کی دعوت کی برکت سے امیر کے پاؤں مضبوط سے مضبوط تر ہوگئے۔اللہ نے اپنے دین کی خدمت ونصرت کے عوض انھیں سرزمین ِ حجاز پر متمکّن کردیا۔اور آج بھی وہی آل ِ سعود عظیم اسلامی مملکت سعودی عرب پر حکمران ہے اور خدمت ِ دین میں تمام اسلامی ممالک سے دامے،درمے،قدمے،سخنے پیش پیش ہے۔ وفات: شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ابھی بیس سال کی عمر کو بھی نہ پہنچے تھے کہ دعوت الی اللہ کا آغاز کر دیا۔جہاں روز بروز جان نثار ساتھی بڑھتے گئے،وہیں مخالفین میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔کئی شہروں سے ہجرت کرنی پڑی مگر فروغ ِ دعوت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا بلکہ اپنے نصب العین کے لیے مسلسل محنت ِ شاقّہ فرماتے رہے۔زندگی کے آخری سالوں میں جب دیکھتے کہ دعوت وتحریک کی شاخیں جزیرۂ عرب کے علاوہ مصر اور ترکی تک بڑی منظم ہوکر کام کررہی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں طلبہ شریک ِ درس ہیں تو خوشی سے پُھولے نہ سماتے۔آپ وہ خوش نصیب داعی ومصلح اورمجدّد تھے،جنہوں نے اپنی شب وروز کی محنت ِ شاقہ اور جُہد ِ مسلسل کا خوشگوار نتیجہ اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیا۔ آپ ستر سال بلا توقّف مصروف ِ دعوت رہے۔شوال ۱۲۰۶ ھ میں ایک
Flag Counter