Maktaba Wahhabi

75 - 105
2۔بے جا آذان جب میت کو دفن کرلیتے ہیں تو وہاں سے تھوڑاہٹ کر آذان دی جاتی ہے جس کا شریعت ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں کہیں سراغ نہیں ملتا۔اگر کوئی اس کا ثبوت پوچھ بیٹھے تو جواب ملتا ہے کہ جب بچہ اس جہان ِ رنگ وبُو میں آتا ہے تو اُس کے کان میں آذان کہی جاتی ہے تاکہ اس کی سماعت کا آغاز توحید ورسالت کے پاکیزہ کلمات سے ہو۔[1] اسی طرح اس کے خاتمہ بالخیر کیلئے تدفین کے وقت آذان کہی جاتی ہے۔ ان سے پوچھیں کہ آیا یہ خاتمہ بالخیر قرآن کی کسی آیت سے ثابت ہوتا ہے؟نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں اس کا ذکر ہے؟ یا خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس پر عمل کیا؟کہیں سے بھی اس کا پتہ نہیں ملتا۔ شارح بخاری علّامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’یہ سنت نہیں،یہ بدعت اور ایجادِ بندہ ہے۔‘‘ اور لکھتے ہیں: (مَنْ ظَنَّ اَنَّہ‘ سُنَّۃٌ قِیَاساً عَلٰی نُدُبِھَا لِلْمَوْلُوْدِ اِلْحَاقَابِخَاتِمَۃِ الْاَمْرِ بِاِبْتِدَائِہٖ فَلَمْ یُصِبْ) ’’جس نے اس کے سنت ہونے کو بچے کے کان میں آذان دینے پر قیاس کیا کہ اس کا انجام بھی ابتدا ء کی طرح خیر پر ہو،وہ غلطی پر ہے۔‘‘ آج کل اللہ خیر کرے،یہودی نے ایک اور مکّارانہ و عیارانہ چال چلی ہے،بچے کے کان میں آذان کہہ کر اسلامی رُوح پھونکنے کی بجائے اُسے اس جہاں میں قدم رکھتے ہی نغمہ وموسیقی سنائی جاتی ہے اور اسے میڈیکل کا ایک مسئلہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔یہ چیزماڈرن طرز کے میٹرنٹی ہومز(زچہ بچہ سنٹرز)میں روز افزوں رواج پذیر ہورہی ہے۔یہودی چاہتا ہے کہ جنم لیتے ہی ’’شاہین بچے‘‘ کوا یسی چاٹ
Flag Counter