Maktaba Wahhabi

77 - 105
پڑتا ہے اور پھر میاں جی میت کی طرف ارسال فرماتے ہیں۔اور شائد بس چلے تو میّت کے نامۂ اعمال میں لکھ آنے سے بھی نہ چوکیں۔باہر قبر پر خیمہ نصب ہے۔ایک حافظ ِقرآن تلاوت پر مقرر ہے۔وہ بے چارہ پیٹ کی خاطر دن رات قبر پر لگے خیمے میں ہی رہے گا۔اور تلاوت کرکے صاحب ِ قبر کو چالیس دن تک ایصالِ ثواب کرتا رہے گا۔الغرض جس کے پاس جتنا مال کا زور ہوگا،اس کے مرحوم کو اتنا ہی ایصالِ ثواب زیادہ ہوگا۔ 5۔اجتماعات ِقُل،دسواں اور چہلم وغیرہ: اسی دوران قل‘تیجہ‘ساتہ‘دسواں اور چالیسواں بڑے بڑے اجتماعات کی شکل میں ہوتے ہیں۔اگر کوئی عمررسیدہ بزرگ فوت ہوا ہو تو چہلم پراس کی’’روٹی‘‘ کی جاتی ہے،جو شادی بیاہ سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ان سب رسوم کو وفاداری بشرطِ استواری نبھانے والے سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مارا ہے۔جو لوگ راہِ حق اور شریعت پر عمل کرتے ہوئے فاتحہ ودرود کی صف ِ ماتم طویل نہیں کرتے،اُن کے متعلق گلفشانی کرتے ہیں۔’’مرگیا مردود،نہ فاتحہ نہ درود‘‘۔اور قل،ساتہ،دسواں وچہلم نہ کرنے پر ارشاد ہوتا ہے:’’نہ قل نہ ساتہ مُردہ گیا گواتا‘‘۔اس طرح ان کے مرحوم کیلئے گالیاں اور خرافات بکی جاتی ہیں۔جبکہ ان کا جرم پاس ِ حق واتباع ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کچھ نہیں ہے،بقول ِ شاعرع مکُش بہ ستم والہان ِ سنّت را نکر دہ اندبجزپاس ِ حق گناہِ دگر مسلمان کے پاس قرآن وسنّت ایک میزان ومعیار اور کسوٹی ہیں جن پر وہ پرکھ سکتا ہے کہ کونسی چیز صحیح وجائز اور کونسی غیر صحیح وناجائز ہے۔ جب ہم اِن رسومات(۳،۴،۵)کو پرکھتے ہیں تو یہ قرآن وسنّت کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔کیونکہ شریعت ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں صرف تین دن تک سوگ منانے کی اجازت ہے،اور وہ عورت جس کا شوہر فوت ہوجائے،اسے پورے ایامِ عدّت(چار ماہ
Flag Counter