Maktaba Wahhabi

138 - 144
کی دوصورتیں ہیں:ایک یہ کہ کوئی شخص اپنے نفس پر ظلم نہ کرے، اوردوسری یہ کہ کسی دوسرے انسان پر بھی ظلم نہ کرے،حدیث میں (فلاتظالموا)وارد ہے جو دوسری صورت کو شامل ہے،مگر ظلم کی دونوں صورتوں کی حرمت شرعی ادلہ سے ثابت ہے۔ ظلم کا اصل مدار نقص ہے،جس کی دوصورتیں ہیں: ایک یہ کہ آپ کسی کے حقِ واجب کا انکار کردیں،مثلاً:کسی سے قرض لیکر اس کی ادائیگی سے منکر ہوجائیں،یا ٹال مٹول سے کام لیں،ایک حدیث میں اسے بھی ظلم کہاگیاہے:(مطل الغنی ظلم)یعنی:مالدار کا ٹال مٹول کرناظلم ہے۔[1] دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کسی شخص کے سرپہ کوئی ایساحق ڈال دیں جو اس کے ذمہ نہ ہو،مثلاً:آپ کسی شخص پر قرض کے دعویدار بن جائیں اور جھوٹی گواہی قائم کرکے اس سے وہ قرض وصول کرلیں جو اس کے ذمہ تھا ہی نہیں۔ کفار کے مال وجان حدیث میں وارد اللہ تعالیٰ کے فرمان:(فلاتظالموا)یعنی: ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اپنے عموم پر قائم ہے،یعنی کسی کے مال وجان پر ظلم روا نہیں ہے،حتی کہ کفار کے مال وجان پر بھی۔ صرف وہ کافر جو ہم سے برسرِپیکارہےاور حالتِ جنگ میں ہے،اس کا مال وجان
Flag Counter