Maktaba Wahhabi

254 - 271
اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی ان دونوں قسموں کو اس آیتِ کریمہ میں جمع فرمادیا ہے : [وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ۰ۭ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْم][1] ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ سلامتی کے گھر کی طرف تم کو بلاتا ہے اور جس کو چاہتا ہے راہِ راست کی طرف ہدایت دیتا ہے ۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان:[وَاللہُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ]میں دعوتِ ارشاد کا ذکر ہے؛ کیونکہ دعوت کے مخاطب تمام لوگ ہیں ۔ارادۂ عموم کی وجہ سے مفعول محذوف ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ راہ نمائی تو سب کی کردی گئی ہے، مگر قبول کون کرتا ہے ؟ ۔۔۔وہی، جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیقِ ہدایت میسر ہو۔ اس بات کا ذکر اس آیتِ کریمہ کے دوسرے حصے میں فرمادیا:[ وَيَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ]یہاں مفعول ظاہر کردیا تاکہ خصوص کا فائدہ حاصل ہوجائے ،مقصد یہ ہے کہ ہدایت کی توفیق ان مخصوص افراد کو ملتی ہے جن کی ہدایت اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ معتزلہ کے رد میں دوحکایتیں ہمارے شیخ محمد الأمین الشنقیطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’رفع ایھام الاضطراب عن آیات الکتاب ‘‘ کے اندر سورۃ الشمس کی تفسیر میں دوحکایتیں ذکر فرمائی ہیں، جن سے تقدیر کے مسئلہ میں معتزلہ کے مذھب کاباطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ پہلی حکا یت: فرماتے ہیں: جب امام ابو اسحاق الاسفرانی نے معتزلی عالم عبد الجبار کے ساتھ مناظرہ کیا، تو اس موقع پر مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی۔ عبدالجبار معتزلی نے کہا: پاک ہے وہ ذات جو گناہوں سے پاک اور منزہ ہے ۔اس کامقصد
Flag Counter