ہے۔بیشتر اسلام کے دعویدار اس پاکیزہ منہج سے انحراف کاراستہ اپنائے ہوئے ہیں،نتیجۃً گمراہیوں کی دلدل گہری سے گہری ہوتی جارہی ہے۔وﷲ المستعان۔ حدیث جبریل علیہ السلام کی تشریح راویٔ حدیث امیر المؤمنین عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بینما نحن جلوس عند رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ذات یوم إذ طلع علینا رجل شدید بیاض الثیاب شدید سواد الشعر لایری علیہ اثر السفر ولایعرفہ منا أحد حتی جلس إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فأسند رکبتیہ إلی رکبتیہ ووضع کفیہ علی فخذیہ۔ ترجمہ:ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک اس مجلس میں ایک شخص نمودار ہوا ،جس کے کپڑے انتہائی سفید اوربال انتہائی سیاہ تھے،اس کے جسم پر سفرکی علامات موجود نہ تھیںاور نہ ہی ہم میں سے کوئی اسے پہچانتاتھا،حتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جڑکربیٹھ گیا (وہ اس طرح کہ )اپنے دونوں گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کے ساتھ جوڑ دیئے اوراپنے دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع حدیث کے اس فقرہ میں بہت سا علم وادب ہے،پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوکہ سیدالأولین والآخرین ہیں کااپنے صحابہ کرام کے ساتھ تشریف فرماہونا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ انتہائی شفقت ومحبت کی دلیل ہے،نیز صحابہ کرام کی عظمت وسعادت بھی مترشح ہوتی ہے کہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان تشریف فرماہیں۔ طالب علم کے آداب یہاں علمی نکتہ یہ ہے کہ ایک شیخ کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تلامذہ کے ساتھ بیٹھے اور انہیں |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |