خیر انہیں ہرگز نصیب نہیں ہوتی۔(سنن دارمی ۱/۶۸-۶۹اس اثر کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (۲۰۰۵) میں وارد کیا ہے) حضرات !آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ صحابیٔ رسول جناب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی سچی اور نیک طلب والی بات کو کس طرح رد فرمادیا،وجہ یہ تھی کہ ان کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ مبارکہ سے ثابت نہیں تھا،جس سے واضح ہواکہ ایک شخص کی طلب کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کاعمل مصطفی علیہ السلام کے طریقہ کے خلاف ہے تو وہ قطعی مردود اورناقابل قبول ہے۔ ’’محمدرسول اللہ‘‘ کی گواہی کاتقاضا (أشھد أن محمدا رسول ﷲ) محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی گواہی،ہم سے بہت سے امور کا تقاضاکرتی ہے،مگر یہ مقامِ تأسف ہے کہ جس قدر ان امورکی معرفت کی ضرورت واہمیت ہے، اسی قدر لوگ غفلت یا تغافل کاشکارہیں۔ ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان امورکی تعمیل وتکمیل کے بغیر تعلق بالرسول کے تمام دعاوی کھوکھلے اورلایعنی ہیں۔و اللہ المستعان ہم اتمامِ حجت کیلئے ان امور کابیان ضروری سمجھتے ہیں،لہذا پیشِ خدمت کئے دیتے ہیں ۔شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ’’ شرح الأربعین النوویۃ‘‘ میں اسی مقام پر ان امور کا تذکرہ فرماتے ہیں،جس کی تلخیص عرضِ خدمت ہے: ’’محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کی شہادت بہت سے امور کومستلزم ہے، (جن کے بغیریہ شہادت قطعی غیر معتبر اورنامکمل تصور ہوگی) 1ضروری ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ ہر امرونہی اور ذکر کردہ ہرخبر کو سچاجان کر اس کی تصدیق کی جائے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |