یعنی میں تم میں ایساشخص نہ دیکھوں جو انتہائی تکبر کے ساتھ اپنے تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھا ہو،اس کے پاس میرا کوئی امر(حدیث) آئے،اور وہ بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ کر حدیث کر رد کردے کہ میں نہیں جانتا میں تو صرف جوکتاب اللہ میں ہے اس کی اتباع کرونگا۔ ایسا جہلاء کو یہ بات معلوم نہیں کہ ہر وہ بات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئے وہ قرآن ہی میں مذکور ہے؛کیونکہ ہمیں (واتبعوہ) کہہ کر قرآن ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پیروی کامکلف ٹھہرایاہے۔ 4آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کے تعلق سے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ گرامیٔ قدرپر کسی بشر خواہ وہ کوئی بھی ہو،کا قول مقدم نہ کرے،کوئی بڑے سے بڑا امام یہ مقام نہیں رکھتا کہ اس کے قول کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر مقدم کیاجائے۔ کیونکہ تم اور تمہارا امام اور دنیا کا ہرانسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا پابند ہے۔ [يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَكُمْ][1] کسی شخص کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پیش کی جائے اور وہ جواب میں کہے کہ میرے فلاں امام کاقول تو اس کے خلاف ہے،یہ بات کتنی افسوس ناک اورہیبتناک ہے ،تمام مخلوقات میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کے قول کا سیدالانبیاء والمرسلین کے فرمان سے معارضہ کیاجائے۔ حدیث کے مقابل قول امام پیش کرنیوالوں کیلئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وعید اسی لئے ایک موقع پر جب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے لوگوں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پیش کی اورلوگوں نے شیخین یعنی ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کے قول سے معارضہ کرنا چاہا تو عبد اللہ بن |
Book Name | حدیث جبریل |
Writer | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 271 |
Introduction | ایک حدیث کی شرح پر مشتمل ہے،یہ حدیث اہلِ علم کے نزدیک (حدیث جبریل)کے نام سے مشہور ہے، جبریل امین علیہ السلام جوتمام انبیاء ومرسلین کے امینِ وحی ہیں،رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے چندروز قبل انسانی شکل میں تشریف لائے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ تشریف فرما تھے ۔جبریل علیہ السلام کی آمد کامقصد لوگوں کو انتہائی اختصار کے ساتھ مہماتِ دین کی آگاہی دینا تھا،جس کیلئے وہ چندسوالات لیکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بندھے ٹکے الفاظ میں جوابات ارشاد فرمائے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو (اصل الاسلام) قراردیاہے،امام قرطبی رحمہ اللہ نے اسے (ام السنۃ) کہا ہے،حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے فرمایاہے:جس طرح سورۃ الفاتحہ، اُم القرآن ہے ،اسی طرح حدیث جبریل(اُم السنۃ)ہے،حافظ ابن رجب البغدادی رحمہ اللہ فرماتےہیں: یہ حدیث پورے دین کی شرح پر مشتمل ہے۔ |