Maktaba Wahhabi

100 - 103
بھی ہے اور راوی بھی ضعیف ہے، یا اس میں دو راوی ضعیف ہیں تو بسا اوقات محدثین ایسی سند کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ اس میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، امام حاکم نے’’ الإکلیل‘‘ میں اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ علی بن قادم، اس کا استاذ (ابو العلاء خالد بن طہمان) اور اس کا استاد (عطیہ)کوفی اور شیعہ ہیں، ان میں کلام ہے، ان میں سب سے زیادہ ضعیف عطیہ ہے، اگر اس کی متابعت ہوتی تو میں اس حدیث کو حسن (لغیرہ) قرار دیتا۔[1] حافظ ابن حجر نے اس کے بعد اس کے شواہد بیان کیے ہیں، مگر اس کے باوجود اس حدیث کو حسن لغیرہ قرار نہیں دیا، کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں ایک سے زائد وجۂ ضعف ہے۔ ملاحظہ ہو: [2] دیگر اسبابِ ضعیف: بعض ایسے ضعف کے اسباب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے حدیث میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور یہ اسباب متعدد ہیں جن کا شمار مشکل ہے، تاہم ذیل میں چند اسباب بیان کیے جاتے ہیں: 1۔ اگر سند میں مبہم راوی ہو، اس کا شاگرد اپنے اساتذہ سے بیان کرنے میں احتیاط نہ کرتا ہو تو ایسی روایت متابع یا شاہد نہیں بن سکتی۔ 2۔ سند میں راوی کی کنیت مذکور ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون ہے؟
Flag Counter