خاموش رہے ہیں۔ مثلا ً:
۱: احمد الباھلی بالاتفاق متر وک اور کذا ب روای ہے، لیکن اس سے مروی حدیث پر حافظ ابن حجر نے سکوت اختیا ر کیا ہے۔[1]
۲: عبد الغفا ر بن قا سم کذا ب اور متر وک کی روا یت پر حا فظ صاحب نے خاموشی اختیا ر کی ہے۔[2]
۳: اسی طرح محمد بن سائب کلبی کی جھوٹی مروی روا یت پر حا فظ ابن حجر نے خا موشی اختیا ر کی۔[3]
صاحبِ بصیرت کے لیے یہی تین مثا لیں کا فی ہیں کہ حا فظ ابن حجر اپنی کتا ب میں کذاب اور متروک راویوں کی روایا ت موضو ع پر بھی خاموشی اختیار کر جاتے ہیں توان کا سکوت حسن ہو نے کی دلیل نہیں ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: [4]
امام حا کم اور علا مہ ذہبی کا سکوت:
امام حا کم کا مستدرک حاکم میں اور حا فظ ذھبی کا تلخیص مستدرک حا کم میں کسی حد یث پر خامو شی اختیا ر کر نا ان کے نز دیک حدیث کے صحیح ہو نے پر دلالت نہیں کرتا۔بعض لو گ اپنے مسلک کی تا ئید میں وارد روایت کو صحیح باور کر انے کے لیے مذکو رہ بے بنیاد اصول کا سہارا لے لیتے ہیں اور
|