Maktaba Wahhabi

64 - 103
(۱۹) جس طرح صحیح حدیث کی اقسام ہیں تو تخر یج کے وقت جو حکم ثابت ہو، وہی لگانا چاہیے، اسی طرح ضعیف حدیث کی بھی بہت زیادہ اقسام ہیں، جو حکم جس پر ثابت ہوگا وہی لگایا جائے گا، مثلاًاگر روایت موضوع ہے تو اس کو موضوع ہی کہا جائے گا، اگر اس پر حکم ضعیف کا لگا دیاتو یہ غلط شمار ہو گا،اس پر شیخ البانی رحمہ اللہ نے بہت زور دیا ہے۔فجزاہ اللّٰه خیرا ً (۲۰) بعض علما ء حسن حدیث کو صحیح سے الگ نہیں کر تے بلکہ حسن پر بھی صحیح کا اطلاق کر دیتے ہیں مثلاًابن خزیمہ ا ورابن حبان وغیرھما۔ اگر دیکھا جائے تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بے شمار حسن روایات موجود ہیں، لیکن ان کو صحیح میں شمار کیا گیا ہے۔ ضعیف حدیث کو بیان کرنے کا طریقہ: جب کسی ضعیف حدیث کو لکھنا ہویا بیان کرنا ہو تو اس وقت جزم کے صیغے ( صیغہ معروف )سے بیان نہیں کر نا چاہیے بلکہ صیغہ تمریض (صیغہ مجہول )سے بیان کر نا چاہیے افسوس ان بعض خطیبو ں پر جو پہلے صیغہ جزم کے ساتھ تفصیل سے ضعیف قصہ یا روایت بیان کر تے رہتے ہیں اور تقریر کے آخر میں کہہ دیتے ہیں:’’ فیہ مقال یا فیہ کلام‘‘اس انداز سے سامع کو اس ضعف کا کچھ علم نہیں ہوتا نہ ہی وہ لوگ فیہ مقال یا فیہ کلام کا مطلب سمجھ رہے ہوتے ہیں !! یہ طریقہ غلط ہے، بلکہ پہلے یہ بتانا چاہیے کہ ایک ضعیف روایت ہے اس سے بچو، اس پر عمل کرنا چھوڑدو، پھر وہ روایت بیان کی جائے، اس کے متعلق علامہ نووی لکھتے ہیں:محدثین اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ جب حدیث ضعیف ہو تو اس کے بارے میں یوں نہیں کہنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یا آپ نے کہا یاآپ نے کرنے کا حکم دیا ہے یا منع کیا ہے اور اسی طرح دوسرے جزم کے صیغوں سے بیان نہیں کرنی چاہیے،بلکہ ان سب صورتو ں میں یوں کہا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے، یا نقل کیا گیا ہے یا روایت کی جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ
Flag Counter