Maktaba Wahhabi

93 - 103
علاوہ ازیں سفیان بن عیینہ، شافعی، یحییٰ بن سعید قطان، محمد بن یحییٰ ذہلی، بخاری، ترمذی، دارقطنی، ابن ترکمانی، علائی، ذہبی، عراقی سے بھی حسن لغیرہ کا حجت ہونا ثابت ہے۔ان اقوال کی تفصیل کا طالب شیخ ابن ابی العینین کی کتاب’’ القول الحسن‘‘ کا مطالعہ کرے۔ جو علماء و محدثین حسن لغیرہ کو قابل عمل و احتجاج سمجھتے ہیں، ان کے ناموں کا ذکر کرنے کا مقصود صرف یہ تھاکہ جو کہے کہ’’ بعض لوگ ضعیف +ضعیف کے اصول اور جمع تفریق کے ذریعے سے بعض روایات کو حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں‘‘یہ باطل بات ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں بلکہ حسن لغیرہ ائمہ و علماء کے نزدیک حجت ہے والحمدللّٰه دوسرااشکال: لیکن حافظ ابن حزم اس اصول کے سخت خلاف تھے بلکہ زرکشی نے ابن حزم سے نقل کیا ہے: ’’ولو بلغت طرق الضعیف ألفاً لا یقوی۔‘‘ اور اگر ضعیف حدیث کی ہزار سندیں بھی ہوں تو اس سے روایت قوی نہیں ہوتی۔ اگرچہ زرکشی نے اسے شاذ اور مردود کہا ہے لیکن انصاف یہ ہے کہ یہی قول راجح اور صحیح ہے۔ یہ قول محمد احمد نے بھی اپنی کتاب ’’الحدیث الحسن بین الحد والحجیۃ ‘‘میں بطور دلیل پیش کیا ہے۔ جواب: 1۔ یہ قول بے سند ہے 2۔ امام زرکشی نے اس قول کو شاذ ومردود کہا ہے امام ابن حزم کے قول کی تردید کے لیے امام زرکشی کی عبارت ہی کافی ہے۔ تیسرا اشکال: حسن لغیرہ کے مسئلے پر عمرو بن عبدالمنعم بن سلیم کی کتاب
Flag Counter