Maktaba Wahhabi

183 - 377
احناف کے نزدیک تو مرسل حجت ہے(توضیح : ج ۱ ص ۴۷۶) ۔ڈیروی صاحب فرماتے ہیں اثری صاحب نے اسے مرسل کہا حالانکہ یہ معضل ہے۔ پھر اس کی سند میں اشعث بن سوار الکندی ہے جو عند الجمہور ضعیف ہے (ایک نظر: ص ۲۷۴،۲۷۵)۔ معضل کسے کہتے ہیں؟ اولاً گزارش ہے کہ یہ معضل کیوں ہے ؟ معضل روایت تو وہ ہوتی ہے جس میں مسلسل دو یا ا س سے زائد راوی ایک ہی مقام سے گرے ہوئے ہوں۔ چنانچہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں : ھوما سقط من اسنادہ اثنان فاکثر بشرط التوالی (تدریب : ص ۱۲۹)یہ ذمہ داری تو اب ڈیروی صاحب کی ہے کہ وہ ثابت کریں کہ یہاں دو راوی گرے ہوئے ہیں۔ حالانکہ حکم رحمہ اللہ بن عتیبہ الکوفی جو اشعث رحمہ اللہ بن سوار کے استاد ہیں تابعی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے انھیں پانچویں طبقہ میں شمار کیا ہے(تقریب: ص ۱۲۱) جن کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ اس طبقہ کے راوی نے ایک دو صحابہ کو دیکھا ہوتا ہے۔ ان میں سے کسی سے سماع ثابت نہیں ہوتا۔ مگر امر واقع یہ ہے کہ حکم رحمہ اللہ نے حضرت عبدالله بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سماع کیا ہے۔ چنانچہ ابن ماجہ (ص ۴۳) باب ما جاء فی التیمم ضربۃ واحدۃ میں ہے الحکم وسلمۃ بن کھیل انھما سألا عبداللّٰه بن ابی اوفی کہ حکم اور سلمہ بن کہیل نے حضرت عبدالله بن ابی اوفی رحمہ اللہ سے سوال کیا۔ بہرحال حکم رحمہ اللہ بن عتیبہ تابعی ہیں۔ اور وہ مرفوع نہیں ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر بیان کرتے ہیں۔ اس لیے درمیان میں زیادہ سے زیادہ ایک واسطہ ہے۔ دو کا دعویٰ اور پھرا سے معضل قرار دینا بلا دلیل ہے۔ اسی طرح حماد سے بھی بظاہر حماد بن ابی سلیمان الکوفی مراد ہیں۔ کیونکہ اشعث رحمہ اللہ بھی کوفی ہیں اور وہ بھی پانچویں طبقہ سے ہیں۔ ان کے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک واسطہ ہو سکتا ہے بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بواسطہ سعید رحمہ اللہ بن جبیر ، سعید رحمہ اللہ بن المسیب، زید رحمہ اللہ بن وہب روایت کرتے ہیں جیسا کہ تحفۃ الاشراف اور تہذیب سے عیاں ہوتا ہے۔ ا س لیے اسے معضل قرار دینا صحیح نہیں۔ پھر کیا معضل قراردینے
Flag Counter