Maktaba Wahhabi

230 - 377
ثانیا: کیا وہ اس روایت میں محمد رحمہ اللہ بن اسحاق کو منفرد قرار دیتے ہیں؟ قطعاً نہیں بلکہ انھوں نے نقل کیا ہے’’ و لم ینفرد بہ محمد بن اسحاق بل تابعہ علیہ زید بن واقد‘‘ کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق منفرد نہیں بلکہ زید رحمہ اللہ بن واقد اس کا متابع ہے(امام الکلام : ص ۲۵۸)۔ لہٰذا اگر انھوں نے ابن اسحاق رحمہ اللہ کی حدیث کو قوی اور صریح قرار دیا ہے تو وہ اس میں اسے منفرد قرار نہیں دیتے بلکہ فرماتے ہیں:’’ ان حدیثہ لا ینحط عن درجۃ الحسن بل صححہ بعض اھل الاستناد‘‘ کہ ابن اسحاق کی حدیث حسن درجہ سے کم نہیں بلکہ بعض مستند حضرات نے صحیح کہا ہے(امام الکلام : ص ۲۶۲) اور اس حدیث کو السعایہ (ج ۲ ص ۳۰۳) میں صحیح قوی السند قراردیا ہے۔ لہٰذا حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث پر اعتراض نہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کی وجہ سے درست ہے اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ اس کا مدار صرف ابن اسحاق رحمہ اللہ پر ہے۔ ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اور نصاب سرقہ کی حدیث راقم نے قاضی ابویوسف رحمہ اللہ ، علامہ طحاوی رحمہ اللہ وغیرہ کے حوالہ سے نقل کیا تھا کہ ان بزرگوں نے دس درہم چوری کرنے پر ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جس روایت سے کیا ہے وہ ابن رحمہ اللہ اسحاق سے مروی ہے اور روایت بھی معنعن ہے۔ علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن لذاتہ قرار دیا ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ سے اس کی توثیق بھی نقل کی ہے (توضیح: ج ۱ ص ۲۹۵) ۔ ڈیروی صاحب فرماتے ہیں : چور کا ہاتھ کاٹنا تاریخی حقائق پر مبنی ہے اور تاریخ اور مغازی کا یہ امامہے عند الجمہور اور مصنف ابن ابی شیبہ (ج ۹ ص ۴۷۴) میں ابن اسحاق کی تحدیث ثابت ہے۔ پھر اس پر مدار بھی نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے : کان ثمن المجن فی عہد رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم عشرۃ دراہم کہ ڈھال کی قیمت حضور علیہ السلام کے زمانہ میں دس درہم تھی۔طبرانی : ج ا۱ ص ۳۱ (ایک نظر:ص ۳۰۲،۳۰۳) سبحان الله ! چور کا ہاتھ کاٹنا تاریخی حقیقت ہو جائے اور اس بنا پر ابن رحمہ اللہ اسحاق کی یہ روایت بھی قابل قبول ہو مگر حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں تاریخی واقعہ بیان ہو کہ صبح کی نماز میں یہ واقعہ پیش آیا تووہ احکام میں شمار ہونے لگے اور روایت بھی مردودٹھہرے۔ اس واقعہ میں جو حکم ہے وہ امام زہری رحمہ اللہ کی روایت میں بھی ہے۔ ابن رحمہ اللہ اسحاق کا جرم یہ ہے کہ اس نے
Flag Counter