Maktaba Wahhabi

265 - 377
کے لیے عرض ہے کہ مولانا صفدر صاحب امام ابوعلی رحمہ اللہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں:’’خطیب لکھتے ہیں کہ وہ حفظ ،اتقان، ورع، مذاکرہ ائمہ اور کثرت تصنیف میں کوئے سبقت لے گئے ہیں۔ ذہبی رحمہ اللہ ان کو الامام الحافظ اور محدث اسلام لکھتے ہیں(حاشیہ احسن: ج ۱ ص ۱۰۴) ۔ اندازہ کیجیے ڈیروی صاحب کے ’’شیخ مکرم‘‘ کیا نقل کرتے ہیں مگر ’’شاگرد رشید ‘‘ امام ابوعلی رحمہ اللہ کے بارے میں کیا تاثر دے رہے ہیں؟ او ر مزید عرض کیا گیا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اسے امام زہری رحمہ اللہ سے بواسطہ ’’ محمد بن عبیداللّٰه عن الربیع بن سبرۃ عن ابیہ ‘‘ بھی روایت کرتے ہیں اوراس میں بھی امام صاحب منفرد ہیں۔ ثقات نے ان کی مخالفت کی ہے اور بلاواسطہ محمد رحمہ اللہ بن عبیدالله اسے روایت کرتے ہیں ۔ امام صاحب رحمہ اللہ کا ذکر کیاہوا یہ واسطہ بھی مجہول ہے۔ لہٰذا یہاں بھی امام صاحب رحمہ اللہ سے وہم ہوا ۔ یہ روایت کتاب الآثار اور مسند ابی حنیفہ رحمہ اللہ میں موجود ہے ۔ بتلایا جائے کیا کوئی امام صاحب کا متابع ثابت ہے؟ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری روایت راقم نے سنن دارقطنی رحمہ اللہ (ج ۱ ص ۸۹) کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ’’ خالد بن علقمۃ عن عبدخیرعن علی ‘‘کی سند سے وضو کی تفصیل میں سر کے مسح کا ذکر تین بار ’’و مسح برأسہ ثلا ثاً ‘‘ کیا ہے اور یہ ان کا وہم ہے۔ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ثقات کی ایک جماعت نے ان کی مخالفت کی ہے(توضیح: ج ۱ ص ۹۳) ۔ مزید عرض ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے العلل (ج ۴ ص ۵۱) میں بھی یہی بات کہی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ایک جماعت کی مخالفت کی ہے اور یہی بات امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن (ج ۱ ص ۶۳) میں کہی ہے۔ جناب ڈیروی صاحب اس کے دفاع میں لکھتے ہیں :’’ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے نیچے کی سندوں کو نہیں دیکھا مگر امام اعظم پر خطا کا الزام لگا دیا جو کہ سراسر نادانی ہے۔‘‘(ایک نظر: ص ۳۰۶) ڈیروی صاحب نے یہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ کے مابین راویوں پر جہالت کا جو حکم لگایا یہ سراسر جہالت اور دھوکا پر مبنی ہے۔ کیونکہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے دو مختلف اسانید سے
Flag Counter