Maktaba Wahhabi

379 - 377
بلکہ یہ بھی عرض کر چکے ہیں کہ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے خود قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کے موقف کو ’’ ھو الصواب‘‘ کہہ کر درست قرار دیا ہے۔ جس کی طرف سے ڈیروی صاحب نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اسی طرح ہم علامہ عینی رحمہ اللہ کے حوالے سے امام قاضی رحمہ اللہ خان کی تردید بھی نقل کر چکے ہیں اس لیے ڈیروی صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے شیخ محترم سے ’’خطبہ وغیرہ‘‘ کے لیے انصات کا حکم ’’وجوبی‘‘ طور پر ثابت کرتے۔ جس طرح وہ اسے نماز کے لیے ’’واجب‘‘ قرار دیتے ہیں۔ امام قاضی خاں کے حوالہ سے اس کی تردید محض دھوکا اور حقیقت سے ناآشنائی کا نتیجہ ہے۔ بتلائیے دھوکا دینے جھوٹ بولنے اور خیانت کرنے کا مرتکب کون ہے ؟ ضروری وضاحت قارئین کرام ! احسن الکلام کے حوالے سے ہم نے بالفظ ثابت کیا ہے کہ مولانا صفدر صاحب یہاں انصات و استماع کا وجوبی حکم صرف مقتدی کے لیے اور نماز سے خارج میں یہ حکم مستحب قرار دیتے ہیں۔ اور یہ اس لیے کہ مقتدی کا نماز اور خطبہ کے دوران میں درود شریف پڑھنا اور صبح کی جماعت کے دوران میں سنتیں پڑھنے کی جو اجازت علمائے احناف نے دے رکھی ہے اس الزامی جواب سے بچاجا سکے مگر اس کے برعکس حکم الذکر بالجہر میں وہ یہی حکم عمومی طور پر واجب قرار دیتے ہیں جیسا کہ توضیح الکلام میں باحوالہ ذکر کر دیا گیا ہے۔ ان کے اسی نوعیت کے رکھ رکھاؤ اور تضاد بیانیوں کے لیے ملاحظہ فرمائیں’’مولانا سرفراز صفدر اپنی تصانیف کے آئینہ میں۔‘‘ ستاسی واں دھوکا عبدالله بن حذافہ کی روایت کا مفہوم : امام بیہقی رحمہ اللہ پر حملہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ (ص ۵۵ط ہند، حدیث نمبر۱۷۴ ص ۸۲)میں ایک باب قائم کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتدی کو جہراً پڑھنے سے روکا ہے، اصل قراء ت سے نہیں۔ اس کے تحت سب سے پہلے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث لائے ہیں کہ عبدالله
Flag Counter