Maktaba Wahhabi

383 - 377
ہیں امام ترمذی رحمہ اللہ نے(ج ۳ ص ۲۱۰ مع التحفہ) میں اس کی حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مسلم رحمہ اللہ نے شواہد میں اس سے روایت لی ہے جیسا کہ المدخل (ج ۴ ص ۵۲،۱۶۹) میں امام حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نعمان بن راشد صدوق ہے۔ البتہ اس کا حافظہ کمزور ہے اور وہ سئ الحفظ ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے۔ ایسے راوی کی روایت اگر ثقات کے مخالف نہ ہو تو حسن درجہ سے کم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (ج ۱۱ ص ۳۳۷) میں فرمایا ہے’’ سندہ حسن‘‘ کہ اس کی سند حسن ہے بلکہ علامہ احمد رحمہ اللہ شاکر نے تعلیق المسند ، رقم:۸۳۰۹ میں کہا ہے ’’ اسنادہ صحیح‘‘ کہ اس کی سند صحیح ہے۔ رہی یہ بات کہ امام زہری رحمہ اللہ اس میں مدلس ہیں تواس کا جواب پہلے گزر چکا ہے اور توضیح الکلام میں بھی اس کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کی معنعن روایات محدثین کے ہاں مقبول ہیں جیساکہ حافظ العلائی نے جامع التحصیل میں صراحت کی ہے۔ لہٰذا امام بیہقی رحمہ اللہ کا اس سے استدلال کسی اعتبار سے بھی غلط نہیں اور ڈیروی صاحب کے اپنے شیخ کی اقتداء میں اعتراضات درست نہیں۔ اٹھاسی واں دھوکا امام بیہقی رحمہ اللہ پر بے جا تنقید اہل علم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اجزائے حدیثیہ ہوں، مسانید یا معاجم ان کے مؤلفین رحمہم اللہ نے ان میں صحت کا اہتمام نہیں کیا۔ ان کا مقصد اسی موضوع سے متعلقہ تمام روایات کو جمع کرنا ہوتا ہے۔ امام طبرانی رحمہ اللہ پر بعض حضرات نے اعتراض کیا کہ انھوں نے اپنی تصانیف میں منکر اور موضوعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا ہے: ھذا الامر لا یختص بہ الطبرانی فلا معنی لا فرادہ الیوم بل اکثر المحدثین فی الاعصار الماضیۃ من سنۃ مائتین وھلم
Flag Counter