Maktaba Wahhabi

391 - 377
کہ رہے امام ابوحنیفہ رحمہ الله، تو میر ے نزدیک ان کا محقق مذہب یہ ہے کہ انھوں نے جہری میں امام کے پیچھے پڑھنے سے روکا ہے اور سری میں پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اس قول کا انکار بھی محض ضد کا نتیجہ ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول دراصل امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اسی قول کے مطابق امام محمد رحمہ اللہ کا قول ہے جس کا اعتراف متعدد علمائے احناف نے کیا ہے اور اسی بنا پر بہت سے مشائخ حنفیہ رحمہ اللہ نے اسی قول کو درست قرار دیا اور اسے راجح بتلایا ہے۔ بلکہ فقہائے احناف کے اقوال سے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کا قول دراصل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کا قول ہے۔ قاضی ابویوسف رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ میں نے کوئی قول امام صاحب رحمہ اللہ کے قول کے خلاف نہیں کہا۔ جو بھی ایسا قول ہے وہ امام صاحب رحمہ اللہ ہی کا فرمودہ اور ان سے روایت ہے۔ یہی بات امام زفر اورامام محمد رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے۔ بلکہ یہ بات انھوں نے حلفاً کہی جیسا کہ علامہ الشامی رحمہ اللہ نے رد المحتار (ج۱ ص ۶۷) میں کہا ہے اور علامہ الحصکفی رحمہ اللہ نے بھی اسی بنا پر کہا ہے: فکان کل یأخذ بروایۃ عنہ و یرجحھا۔(الدر المختار:۱ /۶۷، مع الشامی) ’’کہ (امام ابویوسف، رحمہ اللہ امام محمد، رحمہ اللہ امام زفر رحمہ اللہ وغیرہ) ہر ایک امام صاحب کی روایت ہی لیتے اوراسے ہی ترجیح دیتے تھے۔ ‘‘یہی بات علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ نے عقود رسم المفتی میں کہی ہے ۔ ملاحظہ ہو رسائل ابن عابدین (ج ۱ ص ۲۳) لہٰذا جب ان بزرگوں کے نزدیک ان کا ہر قول دراصل امام صاحب رحمہ اللہ کے اقوال میں سے ایک قول ہے۔ اور وہ اسی کو ترجیح دیتے تھے۔ حقیقتاً ان کا اپنا یہ قول نہیں تو امام محمد رحمہ اللہ کا یہ قول بھی دراصل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کا قول ہے۔ حیرت ہے کہ اثبات تقلید کے لیے تواسی بنا پر کہا جائے کہ ہم حنفی ہیں یوسفی نہیں(الشامی) مگراس مسئلہ میں اس اصول پر یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول کیونکر نہیں؟ غالباً اسی لیے علامہ کشمیری رحمہ اللہ نے بالجزم اسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول قرار دیا ہے۔ ڈیروی صاحب اپنی ضد میں اس کا انکار کریں تواس میں تعجب کیا ہے ؟ انھوں نے کتنے حقائق کا انکار کیا اور کس کس کو جھوٹا، خطاکار اور غلط کار بتلایا
Flag Counter