Maktaba Wahhabi

74 - 377
صادقا مکثرًا(بغدادی : ج ۳ ص ۲۶۳) اسی لیے وہ خطیب کے ہاں بھی معتبر ہے اور سوائے تشیع کے اس پر کوئی الزام نہیں۔ مگراس کی پوزیشن بھی آپ کے سامنے ہے۔ علاوہ ازیں ہم تو ثابت کر آئے ہیں کہ یہ قول الکامل میں موجود، جس میں نہ احمد بن عبدالله ہے نہ ہی محمد بن مظفرہے۔ اس کے بعد تو شیخ الحدیث صاحب کو ضد چھوڑ دینی چاہیے، دیدہ باید۔! امام ابن معین رحمہ اللہ کا دوسرا قول امام ابن معین رحمہ اللہ سے ایک قول : کان یضعف فی الحدیث بھی مروی ہے۔ جس کی اسنادی پوزیشن بھی راقم نے واضح کر دی ہے (توضیح : ج ۲ ص ۲۳۱) مگر ڈیروی صاحب لکھتے ہیں اس میں محمد بن عثمان بن ابی شیبہ رحمہ اللہ ہے۔ جس کی اثری صاحب نے یہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی دشمنی میں توثیق کی ہے، جبکہ توضیح (ج ۱ ص ۴۴۵)میں اس پر کلام کیا ہے۔ ۔ملخصاً (ایک نظر: ص ۳۰۷، ۳۰۸) تضاد کا یہ اعتراض انھوں نے (ص ۲۲۳) پر بھی دہرایا۔ مگر ڈیروی صاحب نے غور نہیں کیا کہ جہاں اس کو متکلم فیہ قرار دیا اورا س کے قول پر اعتماد نہیں کیا تواس کا باعث یہ کہ اسکا قول امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ کے مخالف ہے اور ظاہر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ کے مقابلے میں محمد رحمہ اللہ بن عثمان ابن ابی شیبہ کی نقل قابل اعتبار نہیں۔ اس لیے اسے تضاد سمجھنا اوراس کی توثیق کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی دشمنی پر محمول کرنا ڈیروی صاحب کی کج فکری کا نتیجہ ہے۔ تئیسواں دھوکا الکامل میں امام نضر رحمہ اللہ کی جرح کا انکار راقم نے الضعفاء لابن الجوزی کے حوالہ سے لکھا کہ امام نضر رحمہ اللہ بن شمیل نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو متروک کہا ہے۔ پھر الکامل سے اس کی سند نقل کرکے یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ اس میں احمد بن حفص سعدی ضعیف ،صاحب مناکیر ہے۔ اس کے باوجود جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں کہ احمد رحمہ اللہ بن حفص کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ شاید یہ حدیث
Flag Counter