Maktaba Wahhabi

44 - 128
دولابی وغیرہ۔[1] راوی کا بدعتی ہونا عدالت کے منافی نہیں: راوی میں اصل عدالت اور ضبط ہے، اس کا بدعتی مثلا مرجئی، شیعی اور قدری وغیرہ ہونا مضر نہیں۔اگر کسی راوی کی بدعت اسے کفر تک پہنچا دے جسے بدعت مکفرہ کہتے ہیں تو اس کی روایت قبول نہیں کی جائے گی۔ امام ذہبی نے ابان بن تغلب کے ترجمے میں کہا:’’فلنا صدقہ وعلیہ بدعتہ۔‘‘ہم اس کی سچی روایات لیتے ہیں اور اس کی بدعت اس پر چہوڑتے ہیں۔[2] الزام کی تحقیق کرنا: اگر کسی راوی پر کوئی الزام ہے تو اس کی پہلے تحقیق کی جائے گی۔مثلا امام مکحول شامی پر ابن خراش نے قدری ہونے کا الزام لگایا ہے، حالانکہ امام اوزاعی فرماتے ہیں::فکشفنا عن ذلک فاذا ہو باطل۔پس ہم نے اس الزام کی تحقیق کی تو یہ باطل ثابت ہوا۔[3] اسی طرح امام عبدالرزاق صنعانی رحمہ اللہ پر تشیع کا الزام ہے، جو درست نہیں حالانکہ آپ سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے تھے۔[4] امام عبدالرزاق صنعانی رحمہ اللہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:’’وبہ ناخذ‘‘اور اسی کو ہم لیتے ہیں۔[5] صرف ثقہ راوی سے بیان کرنے والے:(یہ اغلبی ہے کلی نہیں ) ۱: امام شعبہ رحمہ اللہ صرف ثقہ ہی سے بیان کرتے ہیں۔[6] ۲: امام ابوداود عام طورپر اپنے نزدیک ثقہ صرف ثقہ ہی سے بیان کرتے ہیں۔جس
Flag Counter