Maktaba Wahhabi

175 - 281
المقدس کو کہتے ہیں، وہ چھ ہجری میں اس خط کے آنے سے پہلے بیت المقدس فلسطین میں موجود تھا۔ رومیوں کی فتح اور فارس کی شکست: یہ ایلیاء میں ایرانیوں کے ساتھ جنگ کے تعلق سے موجود تھا، بلکہ فارس کو شکست دے چکا تھا اور یہ بڑی خوشی کی خبر تھی، ہرقل کے لئے بھی اور مسلمانوں کے لیے بھی، مسلمان بھی چاہتے تھے کہ رومیوں اور فارسیوں کی جنگ میں رومیوں کو فتح ہو، کیونکہ فارسی مجوسی تھے اور آتش پرست تھے اور رومی عیسائی اہل کتاب تھے، جو بہر کیف ان سے بہتر تھے اور اس کے برعکس کفار قریش یہ چاہتے تھے کہ فارسیوں کو فتح نصیب ہو، کیونکہ فارسی روز آخرت اور قیامت کے منکر تھے، اس لحاظ سے ان میں اور فارسیوں میں تشابہ تھا، لیکن مسلمانوں کی خواہش یہ تھی کہ رومی غالب آجائیں، ابتدائی جنگ میں فارسی غالب آگئے تھے، جس سے کفار مکہ خوش ہوئے اور مسلمان پریشان ہوئے، مگر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: { الم ﴿١﴾ غُلِبَتِ الرُّومُ ﴿٢﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾ فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ } [الروم:1۔4] رومی مغلوب ہوگئے، یہ اﷲ کا امر ہے، لیکن چند سالوں میں رومی غالب آجائیں گے، چنانچہ اس شکست کے تقریباً چھ سال کے بعد رومیوں کو غلبہ نصیب ہوا اور یہ چھ ہجری کا واقعہ ہے، جس میں مسلمانوں نے کفار قریش کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر دس سال جنگ نہ کرنے کی صلح کی تھی، جس کو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم فتح مبین تصور کرتے تھے، کیونکہ اس صلح سے دعوت کا راستہ ہموار ہوگیا، بڑے بڑے وفود اور قبائل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اسلام قبول کیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
Flag Counter