Maktaba Wahhabi

216 - 281
1۔شرک بالذات: اس کا تو کوئی قائل نہیں، ثنویہ فرقہ اس کا قائل ہے، لیکن یہ فرقہ بھی ایک خالق خیر اور ایک خالق شر ماننے کے باوجود دونوں کو برابر نہیں سمجھتا ، ایک کو حکیم اور دوسرے کو سفیہ کہتے ہیں، اس کا درجہ کم رکھتے ہیں، لیکن کہتے یہی ہیں کہ عبادت دونوں کی ہونی چاہیے، کیونکہ وہ خالق شر ہے، اس کے شر سے بچنے کے لیے اس کی بھی عبادت کرنی چاہیے اور وہ خالق خیر ہے، اس سے خیر حاصل کرنے کے لیے اس کی عبادت ہونی چاہیے، گویا ایک جیسے دو خداؤں کا کوئی قائل نہیں، ان کے علاوہ جو دوسرے گروہ ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ما سوا کسی چیز کو ازلی اور ابدی تسلیم نہیں کرتے، البتہ ہندو اور بعض فلاسفہ عالم کو بھی قدیم مانتے ہیں، ہندو ارواح کو بھی قدیم مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ غیر متنا ہی ہیں، زمانے کو بھی قدیم مانتے ہیں، زمانے کی تو کچھ حقیقت ہے، وجود فی الخارج ہے، فلسفی کہتے ہیں وجود فی الخارج ہے، متکلمین خارج میں وجود نہیں مانتے، ہندو ارواح اور مادہ دونوں کو قدیم مانتے ہیں۔ اسلام میں صرف اﷲ تعالیٰ عزوجل کی ذات اقدس ہی واجب الوجود ہے، ہندو واجب الوجود کا بھی مطلب نہیں سمجھتے ہوں گے، یہ شرک فی الذات ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی اور کو واجب الوجود سمجھ لیا جائے۔ 2۔ شرک فی الصفات: دوسرا شرک فی الصفات ہے۔دو صفتیں ہیں، جن کے متعلق زیادہ نزاع آتا ہے، ایک علم، دوسری قدرت، ان دو ہی سے شرک پیدا ہوتا ہے، کسی اور شے میں اگر علم غیب سمجھ لیا جائے یا تصرف کی قدرت سمجھ لی جائے اور اس کو مشکل کشا، حاجت روا سمجھ لیا جائے، تو اس سے شرک شروع ہوجاتا ہے، پھر عبادت شروع ہوجاتی ہے،
Flag Counter