Maktaba Wahhabi

223 - 281
حضرت موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھونسہ دے مارا اور اس کا کام تمام ہو گیا، اس قسم کا اغاثہ یا طلب اعانت جائز ہے، کیونکہ اس میں مستغیث یہ سمجھ کر فریاد رسی کی اپیل نہیں کرتا کہ وہ حقیقی طور پر اس کا مشکل کشااور حاجت روا ہے، یہاں استغاثہ صرف بشری قدرت کے مطابق ہی لیتا ہے، جس سے فریاد رسی کی جائے، اس کو حکم ہے کہ مدد کرے:{ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی } [ المائدہ: 2] جائز اور ناجائز استغاثہ: یہ زیر بحث نہیں ہے، بلکہ زیر بحث یہ ہے کہ جس وقت انسان کی اپنی کوشش سلسلۂ اسباب میں ختم ہوجاتی ہے، تو پھر غیبی سہارا تلاش کرتا ہے، تو اس وقت اﷲ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ اس وقت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی مدد گار نہیں، قرآن نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ جو چیز وہ ان سے مانگتے ہیں، وہ دے نہیں سکتے، ایسی چیز میں جو اﷲ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے، ایسی جگہ میں اس سے مدد لیتا ہے یا وہ کر تو سکتا ہے، مگر اﷲ تعالیٰ کے حکم کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتا، وہ بھی نہ کرنے کے برابر ہی ہے، مثلاً فرشتے ہیں، سب کچھ کر سکتے ہیں، چونکہ فرشتے اﷲ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اور تابع ہیں، وہ بحکم تفویض جو کام ان کے سپرد ہوا، وہی کریں گے۔ عزرائیل سے اب کوئی مدد نہیں لے سکتا کہ میرا بیٹا اکلوتا بیٹا ہے، اسے چھوڑ دینا چاہیے، آج تک اس قسم کی درخواست کسی نے ان سے کی بھی نہیں، کیونکہ ہر ایک سمجھتا ہے کہ عزرائیل کسی کی نہیں مانتا، عزرائیل اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جان قبض کرتا ہے، دوسرے فرشتے بھی اسی طرح ہیں، دو فرشتے ہمارے ساتھ بھی رہتے ہیں، ان سے اگر ہم یہ کہیں کہ ہماری مدد کرو، تو یہ بھی جائز نہیں، اس لئے کہ ان کو اجازت ہی نہیں، وہ وہی کام کرتے ہیں جن کا انہیں حکم دیا گیا ہے، ان فرشتوں کو یہ کہنا بھی درست نہیں کہ مجھے صبح بیدار کر دیں، فرشتوں سے براہ راست اس قسم کی درخواست
Flag Counter