Maktaba Wahhabi

254 - 281
معاشرے میں ایسے افراد بھی جنم لے لیتے ہیں، جولوٹ کھسوٹ کا گھناؤنا کاروبار کرنے لگتے ہیں، ایسے افراد کی اصلاح اور تادیب کے لیے پھر قانون کی بھی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ معاشرہ میں امن و سکون برقرار رہ سکے، جب قانون کی ضرورت ہوگی، تو قانون ایسے شخص کی جانب سے ہونا چاہیے، جو محترم ہو، اﷲ تعالیٰ کی جناب سے اسے غیبی مدد پہنچتی ہو، وہ انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں، جب قانون اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو اﷲ تعالیٰ کا شعور پیدا کرنے کے لیے عبادت ہے، اس طرح گویا ارسطو نے عبادت کو معاشرے کا خادم بنایا ہے۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح: حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تردید کی ہے کہ ان لوگوں نے جو مقصود بالذات چیز تھی، اس کو معاشرے کا خادم بنا دیا ہے، دوسرے جو لوگ اس قسم کے ہوں، ان کی تردید بھی ساتھ ہی ہوجاتی ہے۔ خواہش پرستی: قرآن مجید میں ارشاد ہے: { وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لاَّ یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ} [الأحقاف:5] ’’ اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہے، جو اﷲ کے سوا انہیں پکارتا ہے، جو قیامت کے دن تک اس کی دعا قبول نہیں کریں گے۔‘‘ دوسرے مقام پر ارشاد ہے: { اَفَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ } [الجاثیہ:23] ’’پھر کیا تو نے اس شخص کو دیکھا، جس نے اپنا معبود اپنی خواہش کو بنا لیا اور اﷲ نے اسے علم کے باوجود گمراہ کر دیا۔‘‘
Flag Counter