Maktaba Wahhabi

265 - 281
انکار کا انجام: ’’فإن تولیت ‘‘ اگر تو پھر گیا اور روگردان ہوا، ’’ فإن علیک إثم الأریسیین‘‘ ، تو ’’أریسیین ‘‘ کا گناہ بھی تجھ پر ہوگا، أریسیین بمعنی عتارین ، زراعین، کاشت کار لوگ یعنی ملک کے محنت پیشہ اور کھیتوں میں کام کرنے والوں کا گناہ بھی تمہاری گردن پر ہوگا، کیونکہ لوگ عام طور پر سربراہ ملک کے مسلک پر ہوتے ہیں، ’’ الناس علی دین ملوکھم ‘‘ لہٰذا تم اگر مسلمان ہوجاؤ گے، تو وہ بھی تمہیں دیکھ کر مسلمان ہوجائیں گے۔ ’’ أریسیین‘‘ کی تحقیق: ’’أریسیین‘‘ کا بعض لوگ یہ معنی کرتے ہیں کہ ان سے مراد مجوسی ہیں، کیونکہ ان میں سے زراعت پیشہ اور کاشت کار لوگ تھے، مجوسیوں کو بھی یہ لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، ’’ إثم الأریسیین ‘‘ کا پہلی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ اس میں جو گناہ ہوگا، وہ بھی تیرے ذمہ ہوگا، یہ تسبب کی شکل میں ہوگا، ورنہ مسئلہ تو قرآن کی رو سے یہ ہے: { لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی } [الأنعام: 164] یہ مباشرت کے لیے ہے، یعنی اس شکل میں جو خود فعل کرتا ہے، وہ مباشر فعل ہے، اس کا اثر دوسرے پر نہیں پڑتا، تسبب کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے، گویا ایک کا کام دوسرے کا ذریعہ بن گیا: {وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَھُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِھِمْ } [العنکبوت: 13] تسبب کی وجہ سے دوسرے کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ ’’ إثم الأریسیین ‘‘ کا بعض یہ معنی کرتے ہیں کہ ریس ایک آدمی تھا، اس نے ایک نیا ہی مذہب ایجاد کر لیا تھا، عیسائی اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے، یہاں وہ لوگ مراد ہیں، بعض جگہ ’’ ریسیین‘‘ بھی آتا ہے، یہاں پر تو ’’ أریسیین‘‘ ہی آیا ہے، ایسے ہی ہے جیسے کسی قبیلے کا سردار اور بڑا آدمی ہوتا ہے۔
Flag Counter