Maktaba Wahhabi

285 - 281
کے ننھیال میں غیر معروف ابوکبشہ نامی لوگ گزرے ہیں، جب کسی کی مذمت کرنی ہو تو غامض آدمی کی طرف نسبت کر دیتے ہیں، یہ بھی کہتے ہیں کہ ابو کبشہ ایک آدمی تھا، جس نے شعریٰ کی عبادت شروع کی تھی، اس نے یہ سمجھا کہ بت کیا ہیں؟ شعریٰ بڑا روشن اور منور ہے، اس کی عبادت کرنی چاہیے، گویا وہ بت پرستی کی مخالفت کر کے لوگوں سے الگ ہوگیا، یہ شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی اس کی طرح بت پرستی کی مذمت کرتا ہے، ایک خدا کی پوجا بتاتا ہے، اس طرح گویا یہ ابوکبشہ کا بیٹا ہے، اس کے نقش قدم پر چلتا ہے، جو روش بتوں کے بارے میں اس نے اختیار کی تھی، وہی یہ کر رہا ہے۔ ابوسفیان کا بیان: ’’ إنہ یخافہ ملک بني الأصفر‘‘ تحقیق شان یہ ہے کہ اس سے بنی اصفر کے بادشاہ خوف کھاتے ہیں۔ ’’ إنہ ‘‘ میں ضمیر شان بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مرجع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہوں، ’’ فما زلت موقنا بہ ‘‘ میں ہمیشہ سے یقین کرنے والا تھا، اس بات کا کہ عنقریب یہ غالب آجائیں گے۔ ابو سفیان کہتے ہیں: مجھے خیال پیدا ہوا کہ آج ان سے روم کے عظیم بادشاہ خوف زدہ ہیں، تو ان کا غلبہ ایک نہ ایک دن ضرور ہوگا، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام میرے دل میں داخل کر دیا۔ قریش کی عہد شکنی اور ابوسفیان کا تجدید عہد: صلح حدیبیہ کے بعد قریش نے عہد شکنی کر دی، عہد شکنی کے بعد انہیں خیال آیا کہ ایسا نہ ہو مسلمان حملہ کر دیں ، اس لئے تجدید معاہدہ کے لیے ابوسفیان خود مدینہ گیا
Flag Counter