Maktaba Wahhabi

56 - 281
اس آیت میں فتح مبین سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ کیونکہ ہماری دعوت کے راستے کھل گئے اور لوگ جوق در جوق آرہے ہیں، اسلام کی پوری تاریخ میں اتنے لوگ مسلمان نہیں ہوئے، جتنے ان دو سالوں میں ہوئے، وجہ یہ کہ صلح حدیبیہ فتح مکہ کی تمہید بن گئی، کیونکہ کفار کی فطرت اور جبلت کیا ہے؟ کفار تو عہد شکن ہیں ،یہ اپنے عہد پر قائم نہیں رہتے، قرآن کہتا ہے: { لَآ اَیْمَانَ لَھُمْ } [التوبۃ: 12] ’’ ان کو اپنے عہد کا کوئی پاس نہیں ‘‘ ۔ اپنے مفاد کی خاطر وہ اپنے میثاق کو توڑ دیتے ہیں۔یہ دس سال کا معاہدہ تھا، لیکن دو سال بھی اس پر قائم نہ رہ سکے، تھوڑی سی معیشت بحال ہوئی، تو پھر ان کو مستی سوجھی۔انہوں نے مسلمانوں کے حلیفوں کے خلاف اپنے حلیفوں سے تعاون بھی کیا اور فوجی اور عددی طاقت بھی فراہم کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر مل گئی، آپ نے صحابہ سے کہا کہ تیار ہو جاؤ، آپ نے سمت کا تعین بھی نہیں کیا۔ یہ ایک لمبی کہانی اور لمبا قصہ ہے ۔پھر اسی نتیجے میں آپ نے مکہ پر حملہ کیا اور مکہ فتح ہوا اور سوائے دس افراد کے سب لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔چنانچہ یہ صلح حدیبیہ فتح مکہ کی تمہید بن گئی کہ کفار اپنے عہد کا پاس نہ کر سکے، انہوں نے عہد توڑا اور جونہی عہد شکنی ظاہر ہوئی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہلت دیے بغیران پر حملہ کر دیا اور مکہ فتح ہوگیا۔ صلح حدیبیہ کی اہمیت: ان کئی وجوہات کی بنا پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صلح حدیبیہ کو اصل فتح مبین قرار دیتے ہیں۔ کیو نکہ صلح حدیبیہ کی بدولت صحابہ کی عظمت، ان کی فضیلت اور ان کی منقبت ظاہر ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے حال اور ان کے ایمان کی صلابت کو عیاں فرما دیا۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کو سکینت دے دی ، اپنی رضا کا اعلان کر دیااور فتح
Flag Counter